May 07

محاورہ ہے کہ اندھا کیا مانگے دو آنکھیں ¾ آج کل ایک اور محاورہ زبان زدِعام ہے کہ ”بھوکا کیا مانگے ¾ دو روٹیاں“۔ اب تو حالت یہ ہے کہ خیراتی ہوٹلوں میں لوگ کھانا دینے کی بجائے صرف روٹیوں کی تقسیم پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ لیکن بھوکے ننگے عوام کیلئے خوشخبری یہ ہے کہ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا ہے کہ 1973ءکے آئین اور عدلیہ کی بحالی، اداروں کے استحکام، آزاد صحافت کے فروغ سمیت بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو یقینی بنانے کے علاوہ روٹی‘ کپڑا اور مکان کے منشو ر پر بھی عملدرآمد ہو گا۔ عوام کی خدمت کرتے ہوئے انکی توقعات پر پورا اتریں گے اور عدلیہ کی آزادی کی جنگ ہم لڑیں گے۔

اپنے آبائی شہر ملتان کے پہلے تین روزہ دورے کے آغاز پر ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آصف علی زرداری اور بھٹو خاندان کے دوسرے افراد کی موجودگی میں وزارت عظمیٰ کا منصب ملتان شہر کو ملنا پیپلز پارٹی کی جمہوریت پسندی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ یہ پارٹی وفاق کی علامت ہے ، عام انتخابات میں عوام نے جمہوری قوتوں کو کامیاب کرایا اور عوام نے ان جماعتوں کو ان کے منشور، 1973ءکے آئین کی بحالی، صحافت کو آزاد کرانے اور اداروں کو مضبوط بنانے کے لئے ووٹ دیا لہٰذا ہم ان کی توقعات پر پورا اترنے اور منشو رپر عملدرآمد کو یقینی بنائیں گے۔ ہمیں اقتدار میں آئے ہوئے35 دن ہو گئے ہیں یہ ایک مخلوط حکومت ہے ہم عوام کی عملی خدمت کا ثبوت دیتے ہوئے مختلف منصوبوں کا آغاز کریں گے جس سے عوام یہ محسوس کریں گے کہ واقعی حکومت عملی طور پر ان کےلئے کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں جن پسماندہ علاقوں کو نظر انداز کر دیا گیا ان پر خاص توجہ دی جائے گی۔
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرف سے وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد یہ ان کا پہلا دورہ ملتان تھا۔ ملتان شہر کا شمار پاکستان کے انتہائی گرم علاقوں میں ہوتا ہے جہاں دوسرے شہروں کی نسبت درجہ حرارت کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ اس شدید گرمی میں گھنٹوں حاضرین کی جلسہ گاہ میں موجودگی ان کے لئے بڑی اذیت کا باعث تھی اگر اس شدید گرمی کے پیش نظر جلسہ عام سے خطاب کرنے کی بجائے پارٹی رہنماﺅں سے ملاقات اور پریس کانفرنس کے دوران وزیر اعظم اپنے پروگرام کا اعلان کر دیتے تو ہزاروں افراد کو گرمی کی شدت اور اذیت سے بچایا جا سکتا تھا۔ وزیر اعظم نے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عوام سے جو وعدے کئے اور ان کے مسائل کے حل کی جو یقین دہانی کرائی وہ ایک خوش آئند امر تو ضرور ہے لیکن اگر عوام کی مشکلات اور مسائل کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے اور گزشتہ 35 روز کے دوران ذمہ دار حکومتی حلقوں کی طرف سے ان کے لئے کرائی جانے والی یقین دہانیوں اور عملی اقدامات پر ایک نظر ڈالی جائے تو معروضی حالات اور زمینی حقائق بالخصوص آٹے ، گندم اور بجلی کے بحران میں آنے والی شدت، اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور گرانی کے بڑھتے ہوئے گراف کے پیش نظر کوئی حوصلہ افزا تاثر پیدا نہیں ہوتا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ملک کے متعدد علاقوں میں آٹا اور گندم نایاب ہونے کے علاوہ ملک گیر سطح پر انکی قیمت میں بے لگام اضافے کو بھی روکا نہیں جا سکا۔ دالوں، سبزیوں، چینی، خوردنی تیل، چاول غرض روزمرہ استعمال کی تمام اشیاءکی قیمتوں میں اضافہ کا عمل جاری ہے جس نے غریب عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا اور انکی کمر ہمت توڑ کر رکھ دی ہے۔ انتہا یہ ہے کہ غریب عوام بیروزگاری، گرانی اور فاقہ کشی سے تنگ آ کر خودکشیوں کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں نے ان کا جینا مشکل کر دیا ہے۔ یوٹیلیٹی سٹوروں کی لوٹ مار پر بھی عوام سراپا احتجاج ہیں۔ بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نے بحران کی شدت میں اضافہ کیا ہے اور ہزاروں صنعتی ادارے بند ہونے کی وجہ سے لاکھوں افراد بیروزگاری کا شکار ہو گئے ہیں۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ اس بات کا اعادہ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ حکومت کو یہ تمام مسائل اور بحران ورثے میں ملے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جمہوری نظام حکومت میں متبادل قیادت کے حوالے سے اپوزیشن کی یہ بھی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ملک و قوم کو درپیش مسائل اور عوامی مشکلات پر نہ صرف کڑی نظر رکھے اور حکومت کی پالیسیوں اور منصوبوں میں خامیوں اور کوتاہیوں کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کرنے کے بعد برسر اقتدار آنے کی صورت میں ان تمام مسائل کے حل کی قبل از وقت منصوبہ بندی بھی کرے تاکہ اقتدار سنبھالنے کے بعد وہ محض یہ کہہ کر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش نہ کرے کہ اسے یہ مسائل اور بحران ورثے میں ملے ہیں اسلئے کہ عوام کو اس سے غرض نہیں ہوتی کہ برسرِ اقتدار آنے والوں کو کیا مسائل ورثے میں ملے ہیں وہ تو اپنے مسائل اور مشکلات کا حل چاہتے ہیں اور موجودہ حکومت میں شامل جماعتوں کو بھی عوام نے اسی بنیاد پر منتخب کیا ہے کہ وہ انکے مسائل حل کریں گی لہٰذا اب عوام کو محض زبانی کلامی وعدوں اور یقین دہانیوں سے مطمئن نہیں کیا جا سکتا۔ حکومت کو اس کےلئے ایک مو¿ثر اور نتیجہ خیز طریق کار وضع کرنا ہو گا۔ حکومتی حلقوں کی طرف سے تسلسل کے ساتھ ورثے میں ملنے والے مسائل اور بحرانوں کا ذکر اور ان کی ذمہ داری اپنی پیش رو حکومت پر ڈالنے سے یہ ناخوشگوار تاثر پیدا ہو رہا ہے کہ انہوں نے الیکشن سے پہلے نہ ان مسائل و مشکلات کا تجزیہ کیا اور نہ ہی ان کے حل کےلئے کوئی منصوبہ بندی کی گئی۔ مسائل تو ہر برسرِ اقتدار آنے والی حکومت کو اپنی پیش رو حکومت کی طرف سے ورثے میں ملتے ہیں لیکن برسرِ اقتدار آنے کے بعد پیش رو حکومت کی ذمہ داری ختم ہو جاتی ہے اور ان مسائل و مشکلات کے حل کےلئے بھی عوام اپنی تمام توقعات برسرِ اقتدار آنے والی حکومت سے وابستہ کرنے کا حق رکھتے ہیں لہٰذا برسر اقتدار آنے سے پہلے عوام کو درپیش مسائل کے حل کی تیاری ہر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔
اس وقت گرانی اور بے لگام مہنگائی نے پوری معیشت اور قومی زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اس پر غربت کے بڑھتے ہوئے گراف، بیروزگاری اور آبادی میں بے ہنگم اضافے نے صورتحال کو انتہائی اذیت ناک بنا دیا ہے۔ دنیا بھر کے ممالک میں عوام کو گرانی سے بچانے اور ان کی قوت خرید میں اضافہ کرنے کےلئے روزمرہ استعمال کی اشیاءپر سب سڈی دی جاتی ہے۔ امریکہ جیسے ملک میں صرف زرعی شعبے کو 4کھرب ڈالر کی سب سڈی دینے کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ عوام کی قوت خرید متاثر نہ ہونے پائے اور انہیں اشیائے ضروریہ کی سستے داموں فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے، بھارت میں کاشتکاروں کو مشینی زراعت کےلئے مفت بجلی اور پانی فراہم کیا جاتا ہے، انتہائی سستے داموں کھاد اور بیج کی فراہمی حکومت کی ذمہ داری ہے اس طرح عوام کو گندم آٹا، دالیں اور سبزیاں سستے داموں فراہم کرنے میں بڑی مدد اور سہولت میسر آتی ہے۔ لہٰذا موجودہ حکومت کو عوام کی مشکلات اور مسائل کا ادراک کرتے ہوئے ایسے اقدامات میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئے جو انہیں اس اذیت ناک صورت حال سے نجات دلا سکیں، ان کی محرومیوں اور مایوسیوں کا خاتمہ کر سکیں اور انہیں یہ احساس دلا سکیں کہ انہوں نے موجودہ حکومت کے حق میں اپنے ووٹ کے استعمال کا درست فیصلہ کیا تھا۔ اس طرح ان کے اعتماد میں اضافہ ہو گااور انکی قوت خرید بڑھے گی۔ آٹے اور گندم کے بحران اور تمام اشیائے خوردو نوش کی قیمتوں میں بے لگام اضافے کی ایک وجہ گراں فروشوں اور ذخیرہ اندوزوں کی طرف سے تجارتی ضابطہ اخلاق کی پامالی بھی ہے۔ یہ ایک دیرینہ مرض ہے اور کوئی بھی حکومت اس کا ازالہ نہیں کر پائی ۔ اس وقت بھی ایک طرف تو یہ عناصر مارکیٹ میں رسد و طلب کا توازن درہم برہم کرنے میں مصروف ہیں تو دوسری طرف بعض ہمسایہ ممالک کو گندم اور آٹے کی سمگلنگ بھی جاری ہے اس کے علاوہ حکومت نہ اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں کمی کر پائی اور نہ ہی ذمہ دار حلقے گرانی کو روکنے اور قیمتوں پر نظر رکھنے کےلئے کسی حسن کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے۔ جب تک حکومت اشیائے ضروریہ پر سب سڈی دینے کے علاوہ قیمتوں پر نظر نہیں رکھتی، گراں فروشوں ذخیرہ اندوزوں اور سمگلروں کا کڑا احتساب نہیں کرتی اور اس کےلئے کئے جانے والے اقدامات کی مانیٹرنگ کا مو¿ثر اہتمام نہیں کرتی،کوئی حکومتی اقدام نتیجہ خیز اور بار آور ثابت نہیں ہو سکتا اور نہ ہی عوام کی مشکلات اور مسائل کا ازالہ ممکن ہو سکتا ہے۔ اس پس منظر میں حکومت کے تمام دعوے، وعدے اور یقین دہانیاں نقش بر آب ثابت ہونگی اور عوام کی محرومیوں میں اضافہ حکومت پر عوام کے اعتماد کو بھی متزلزل کر کے رکھ دےگا۔ حکمرانوں کی طرف سے عوامی حکومت کا دعویٰ بھی صرف اسی وقت سچ ثابت ہو سکتا ہے جب حکومت عوام کے مسائل و مشکلات کے ازالے کو اولین ترجیح قرار دینے کے ساتھ ساتھ نتیجہ خیز اور بار آور اقدامات کو بھی یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھے ورنہ سب کچھ نشستند و گفتند و برخواستندکے زمرے میں آجائےگا۔ زرعی پاکستان میں اگر استحصالی رویہ نہ اپنایا جائے ¾ وسائل کی تقسیم اور انسانی سرمائے کا درست استعمال کیا جائے تو خوراک میں خودکفالت ہی نہیں خودمختاری کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ میں ماتم داری اور مایوسی کا رویہ نہ اپناتا ہوں نہ فروغ دیتا ہوں ¾ مجھے یقین ہے کہ انشااللہ تمام تر مسائل کے باوجود پاکستان اور اس کے عوام کے مقدر میں خوشحالیوں جیسے غزال ہیں۔ بقول شاعر
بھوکی آنکھیں کھوئی کھوئی تر نوالوں میں رہیں
پیٹ خالی الجھے کب تک ان سوالوں میں رہیں
مفلسی جیسے درندے کو مٹا کر دہر سے
آﺅ ہم خوشحالیوں جیسے غزالوں میں رہیں

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply