Oct
03
|
Click here to View Printed Statement
وطن عزیز اپنے آغاز سے ہی گوناگوں مسائل سے دوچار رہا ہے۔مسائل کی نوعیت داخلی بھی ہے اور خارجی بھی۔میں نے جب سے اخبارات پڑھنے شروع کیے ہیں یہی سنا اور پڑھا ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔اور اس بات میں کوئی شک بھی نہیں۔اپنوں کی نااہلیاں،حرص و ہوس اور باہمی انتقام نے جہاں ملک میں اچھی حکمرانی کا خواب کبھی پورا نہیں ہونے دیا وہیں خارجی محاذ پر دشمن نے ہمیشہ سازشوں کے جال بچھا رکھے ہیں۔آج ہم پھر قومی بقا کی جنگ لڑرہے ہیں۔لیکن پاکستان کے عوام اپنے حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ بہتات میں پیدا ہونے والی گندم اور چینی کی قیمت کنٹرول سے باہر کیوں ہوگئی۔روپیہ افغانستان کی کرنسی سے بھی کیسے نیچے چلا گیا،جی ڈی پی مائنس میں کیسے ہوگئی۔قرضے کیسے بڑھ گئے اور جرائم کی شرع میں کیسے اضافہ ہوگیا؟ یہ ٹھیک ہے کہ ستر برس سے اس ملک میں کرپشن ہورہی ہے۔یہ بھی سچ ہے کہ انصافی حکومت نے سابق حکمرانوں کو بڑی کامیابی کیساتھ نیب اور ایف آئی اے کے ذریعے کنٹرول کیا ہوا ہے۔ لیکن اب بھی ہر سال 10ارب ڈالر باہر جارہے ہیں۔کراچی میں بجلی نایاب ہے۔سردیوں میں گیس نہ ہونے کی “خوشخبری” وزیراعظم خود ہی دے رہے ہیں۔
دوسری جانب خارجی محاذ پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں۔ صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔مقبوضہ کشمیر کو جس طرح ہماری آنکھوں کے سامنے مودی نے بھارت میں ضم کیا ہے وہ انتہائی تکلیف دہ ہے۔گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے حوالے سے ہرروز اشتعال انگیز دھمکیاں مل رہی ہیں۔کنٹرول لائن پر فائرنگ کرکے دشمن ہمارے معصوم کشمیری بہن بھائیوں کو زخمی اور شہید کررہا ہے۔کے پی کے میں پھر سے دہشت گردی کے واقعات شروع ہو چکے ہیں۔
کہا جاسکتا ہے کہ قومی اداروں کے مثالی تعاون کے باوجود حکومت چلانا جناب عمران خان کے بس میں نہیں ہے۔نوجوانوں کی جماعت اور ایک قومی ہیرو کے اقتدار کا تجربہ بھی بری طرح ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔
پاکستان میں نظام حکمرانی کے مختلف تجربات کیے گئے اور بار بار کیے گئے۔مارشل لا بھی پاکستان کے دکھوں کا مداوا نہ کر سکے۔کنٹرولڈ ڈیموکریسی کے ذریعے بھی سیکولر جماعتوں کا راستہ کھلا رکھا گیا۔اب تو تمام رازوں سے پردہ اٹھ چکا کہ پاکستان کے دشمن نہیں چاہتے کہ اسلام کے نام پر بننے والے اس ملک میں مذہبی جماعتوں کو اقتدار ملے۔لیکن کیا ہم بھی یہی چاہتے ہیں۔خود امریکہ جب چاہتا ہے طالبان سے صلح کر لیتا ہے لیکن پاکستان پر دبا ہے کہ یہاں جماعت اسلامی یا جمعیت علمائے اسلامی کسی دینی جماعت کو فیصلہ سازی کے عمل سے دور رکھا جائے۔
میں مذہبی قیادتوں کا ناقد ہوں ۔لیکن اگر سیکولر قیادتوں کے ساتھ دینی سیاسی رہنماں کا تقابل کیا جائے تو کسی بھی مکتبہ فکر کے رہنما ان سیاسی لیڈروں سے کہیں زیادہ ایماندار،اہل اور محب وطن ثابت ہوئے ہیں۔آپ مولانا فضل الرحمان پر ہزار تنقید کریں لیکن کوشش کے باوجود حکومت کسی طرح کی کرپشن ثابت نہیں کرسکی۔جماعت اسلامی کے امیر انتہائی درویش صفت رہنما ہیں۔ سنی ہوں یا شعیہ ان کے رہنما اعلی کردار کے لوگ ہیں۔یہی اعلی صفات دیگر مذہبی شخصیات میں بھی موجود ہیں۔دوسری طرف شریف برادران ہوں،زرداری صاحب کی پارٹی ہو یا عمران خان کی تحریک ہو،ان کے بارے میں ہر طرح کے اخلاقی اور مالی سکینڈلز سامنے آرہے ہیں۔پاکستانی قوم کو بھی اس حوالے سے سوچنا چاہیے اور اسٹیبلشمنٹ کو بھی دل کشادہ کرنا چاہیے۔اور دینی قیادتوں کو بھی آزما لینا چاہیے۔
خود مذہبی قیادتوں کا بھی فرض ہے کہ وہ مسلکی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک وسیع مذہبی سیاسی اتحاد بنائیں اور سیکولر پارٹیوں کے متبادل کے طور پر سامنے آئیں تاکہ ملک کے حالات بہتر ہو سکیں۔اقبال نے کہا تھا،
تو نے پوچھی ہے امامت کی حقیقت مجھ سے
حق تجھے میری طرح صاحبِ اسرار کرے
ہے وہی تیرے زمانے کا امامِ برحق
جو تجھے حاضر و موجود سے بیزار کرے
یہ خصوصیات ہماری دینی قیادتوں میں ہی پائی جاتی ہیں۔