Oct
28
|
صوبہ سندھ کے محکمہ داخلہ کیطرف سے مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں نواز شریف کے داماد اور مریم نواز کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر کے خلاف مقدمے اور پولیس کی اعلی قیادت سے بدسلوکی اور توہین کی تحقیقات کے لیے قائم وزارتی کمیٹی نے اپنی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں۔اس صوبائی وزارتی کمیٹی کے کنوینر صوبائی وزیر سعید غنی جبکہ ارکان میں ناصر حسین شاہ، سید سردار علی شاہ،اویس قادر شاہ اور معاون خصوصی مرتضی وہاب شامل ہیں۔کمیٹی 18 اور 19 اکتوبر کو کیپٹن(ر)صفدر کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے پولیس پر ڈالے گئے مبینہ دبائواور ہوٹل میں چھاپہ مار کر مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی پرائیوسی اور وقار کو مجروح کرنے کے الزامات کی تحقیقات کررہی ہے۔قارئین کو یاد ہو گا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کیپٹن (ر) صفدر کو 19 اکتوبر کی صبح کراچی کے ایک مقامی ہوٹل سے گرفتار کیا تھا۔ ان کے خلاف بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار پر نعرے بازی کرنے اور دھمکیاں دینے کے الزام میں مقدمہ درج کیا گیا۔
اور پیر کو ہی کراچی کی ایک مقامی عدالت نے انھیں ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔ چیئرمین بلاول بھٹو نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے بھی اس واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔ جس کے بعد آرمی چیف کی جانب سے کراچی کے کور کمانڈر کو تحقیقات کر کے فوری رپورٹ دینے کی ہدایت کی تھی۔آئی جی سندھ مشتاق مہر پر دبا ڈالنے کیخلاف آئی جی سمیت سندھ پولیس کے 36 افسران و اہلکاروں کی جانب سے احتجاجا چھٹی پر جانے کی درخواستیں جمع کروائی گئیں جن میں سے 20 افسران کا تعلق کراچی جبکہ 16 کا صوبے کے دیگر شہروں سے تھا۔آرمی چیف کی بلاول بھٹو کو تحقیقات کی یقین دہانی کے بعدا گرچہ چھٹی کی درخواستیں کچھ عرصہ کیلئے رکی ہوئی ہیں لیکن سندھ پولیس کے اس شدید ترین احتجاج نے جہاں پولیس کے وقار میں اضافہ کیا ہے وہیں پورے پاکستان کے لوگوں کو احساس دلایا ہے کہ سندھ کی پولیس غیرت مند ہے۔ احتجاج سے یہ بھی باور کرایا کہ پولیس فورس اپنی عزت نفس پر آنچ نہیں آنے دے گی اور اپنے فرائض میں کسی قسم کی مداخلت برداشت نہیں کرے گی۔آئی جی سندھ مشتاق مہر اور سندھ پولیس کی اس جرآت کو جناب بلاول بھٹو،جناب نواز شریف،محترمہ مریم نواز صاحبہ اور محترم مولانا فضل الرحمان نے جائز اور جراتمندانہ قدم قرار دیا۔میاں نواز شریف نے تو سندھ پولیس کو سیلوٹ بھی پیش کیا۔تحقیقات کا جو بھی نتیجہ ہوگا وہ کسی نہ کسی فریق کیلئے متنازعہ ہی ہوگا۔ لیکن ایک بات تاریخی طور پر غیر متنازعہ ہی رہیگی کہ آئی جی سندھ نے اپنے افسروں اور جوانوں کے مورال کو بروقت سنبھالا اور ہزار خطرات مول لیکر دبا ڈالنے والوں کو واضع اور دو ٹوک پیغام دیا۔پولیس فورس کا مورال بلند رکھنا کسی بھی کمانڈر کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔اگر مورال گر جائے تو پھر پولیس مجرموں کی سرکوبی نہیں کرسکتی۔جناب مشتاق مہر اس بات کو جانتے ہیں۔صوبہ سندھ امن و امان کے حوالے سے مشکل ترین صوبہ ہے۔اس صوبہ کی پولیس نے دہشت گردوں پر قابو پانے کیلئے کسی بھی دوسرے صوبے سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔جناب مشتاق مہر جہاں ایک پروفیشنل آئی جی ہیں وہیں اہنی فورس کا خیال رکھنے میں بھی خاص شہرت رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے جب دیگر افسران تک اپنے آئی جی کی توہین کی بات پہنچی تو تقریبا تمام آفیسر نے ہی رخصت پر جانے کا فیصلہ کیا۔پولیس کے اندر ایسی مثالیں خال خال ہی ملتی ہیں۔جناب مشتاق مہر سے میری ملاقات کراچی میں ہوئی تھی۔ نامور خاتون صحافی محترمہ حمیرا موٹالہ اور ان کی ٹیم کے اعزاز میں،میں نے ایک عشائیہ کا اہتمام کیا تھا جس میں مشتاق مہر چیف گیسٹ تھے۔اس وقت وہ ایڈیشنل آئی جی تھے۔ ان کی گفتگو سن کر اور ان سے باتیں کر کے معلوم ہوا کہ وہ دھیمے مزاج کے اصول پسند آدمی ہیں۔ہمارے سیاسی رہنما عموما پولیس افسران کو اپنا ملازم سمجھتے ہیں۔لیکن بلاول بھٹو آئی جی سندھ اور دیگر پولیس افسران کی بڑی عزت کرتے ہیں۔انہوں نے آئی جی صاحب کوحکم دینے یا ناراض ہونے کی بجائے بلاول ہاس چا ئے پر بلایا،ان کی بات سنی،پولیس فورس کی ذہنی کیفیت سے آگاہی حاصل کی اور درخواست کی کہ پولیس فورس تحقیقات تک اپنی چھٹیوں کی درخواستیں واپس لے لے۔آئی جی نے افسران کو اعتماد میں لیکر فرائض کی ادائیگی پھر سے شروع کر رکھی ہے۔اب یہ سندھ حکومت اور آرمی چیف پر منحصر ہے کہ وہ ان غیرت مند اور فرض شناس پولیس افسران کی دلجوئی کا کیا راستہ نکالتے ہیں۔لیکن سچی بات یہ ہے کہ مشتاق مہر کو سیلوٹ کرنے پر میرا بھی جی چاہتا ہے!