Oct 29
Click here to View Printed Statement

انسان کے چار وجود ہیںیعنی حیوانی ، عقلی، روحانی اور اخلاقی وجود۔ان کا تذکیہ ہی ہماری اصل کامیابی ہے۔ اخلاقی وجودسے ہی کاروباری اخلاقیات تشکیل پاتی ہیں۔قرآن پاک میں ایسی بیشمار آیات ہیں جن میںاخلاقی قدروں پر عمل نہ کرے والوں کو تنبیہ کی گئی ہے۔ایک جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ تم ناپ تول کر لیتے وقت پورا لیتے ہو اور دیتے وقت کم تولتے ہو۔کیا تم روز آخرت پر یقین نہیں رکھتے۔اس عظیم دن پر کہ جس دن لوگ رب العلمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔انشورنس میں بھی ہم ایک وعدہ بیچتے ہیں اور کلیم ہمارا پروڈکٹ ہوتا ہے اگر ہم اپنا کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کرتے تو دراصل ہم بھی کم تولنے والوں میں شمار ہونگے۔دنیا کا کوئی کاروبار بھی ایمانداری کے بغیر نہیں چل سکتا۔جہاں ایمانداری نہیں ہوتی وہاں اعتماد نہیں ہوتا اور جہاں اعتماد نہیں ہوتا وہاں کاروباری لین دین نہیں ہوسکتا۔دھوکہ دہی سے وقتی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن تادیر نقصان مقدر بن جاتا ہے۔انشورنس سیکٹر کی ساری عمارت ہی اعتماد اور اعتبار کی اینٹوں سے جڑی ہے۔

آپ لمحہ بھر کیلئے سوچیے کہ کہ انشورنس کے بانی اداروں اور کمپنیوں کو اپنا اعتماد جمانے کیلئے کتنی مشکلات آئی ہونگی،کتنے خسارے برداشت کرنے پڑے ہونگے اور کتنی بار اپنی پراڈکٹس اور سروسز کو اپ ڈیٹ کرنا پڑا ہوگا۔میں یہاں کاروباری ایمانداری کی بات کررہا ہوں۔جھوٹ سے اجتناب۔جھوٹ کاروباری اعتماد کا سب سے بڑا قاتل ہے۔ڈائریکٹر سے لیکر کارکن تک اور مالک سے لیکر پروڈیوسر تک سب کوایک دوسرے کیساتھ سچ بولنا چاہیے۔آپس میں بھی سچ بولنا ٹیم میں باہمی اعتماد کو فروغ دیتا ہے۔آپ کلائنٹس سے کیا شرائط طے کر رہے ہیں،کیا پیشکش کی ہے،کلائنٹس کا حقیقی اسٹیٹس کیا ہے؟ڈیل کی جزیات کیا طے کی ہیں،یہ سچ سچ بتایا جانا ضروری ہے۔کم ازکم آپ اور کلائنٹس کے درمیان ہونے والی ڈیل کا متعلقہ باس کو علم ہونا چاہیے۔تاکہ کمپنی کو خسارے کا کم سے کم احتمال ہو۔اسی طرح مالک یا ڈائریکٹرز کو چاہیے کہ وہ ہر ڈیل کو اپنی ذاتی ڈیل سمجھیں اور کسی نقصان کی صورت میں سارا ملبہ کسی ایک آفیسر پر مت ڈالیں۔ ہمارے ہاں دو بڑے مسائل ہیں جن کے سبب اعتماد کی فضا کو دھچکا لگتا ہے اور کاروبار پھلتا پھولتا نہیں۔ایک معاملہ یہ کہ جونہی کوئی ڈیل فائنل ہونے کے قریب ہوتی ہے،کوئی دوسرا ایجنٹ کم ریٹس پر اس ڈیل کو اچک لیتا ہے۔بعض اوقات توافسران خود ایسی حوصلہ شکن کارروائیوں میں شریک ہوجاتے ہیں۔ایسے ماحول میں ایک طرف محنتی کارکنوں کے دل ٹوٹ جاتے ہیں اور وہ بھی منفی سوچ پر چل پڑتے ہیںتو دوسری طرف ریٹ کم کر دینے سے ادراے کا پریمئیم کم ہو جاتا اور انڈسٹری بدنام ہو تی ہیں اور بزنس ٹارگٹس ادھورے رہ جاتے ہیں۔بلکہ کمپنی کا خسارہ بھی بڑھ جاتا ہے۔دوسرا بڑا مسئلہ کلیم کلیرنس اور پیمنٹ کا ہے۔ہمیں ذہن میں رکھنا چاہیے کہ انشورنس بزنس کوئی کیش اینڈ کیری سٹور نہیں بلکہ ہائی رسک بیسڈ اور ہائیلی ان پریڈکٹ ایبل کاروبار ہے۔ہم رسک ریڈکشن کی تمام پیش بندیوں کے بعد بھی یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ اب اس ڈیل کے نتیجے میں کوئی کلیم نہیں آئے گا۔کلیم تو دینا ہی ہوتا ہے لیکن بعض انشورنس کمپنیاں پالیسی کے طور پر کلائنٹس کو تنگ کرتی ہیں۔افسران کی کوشش ہوتی ہے کہ کلیم کو اتنا لٹکا کہ کلائنٹس مایوس ہوکر اپنی رقم کو بھول جائیںبعض سرویرز بھی اس میں اپنا کردار ادا کرتے ہے۔ملکی قوانین کے باوجود ایسے اعتماد شکن اقدامات متواتر ہو تے ہیں جس کے سبب پاکستان میں انشورنس کے بزنس کے بارے میں عمومی رائے یہ ہے کہ یہاں سب فراڈ ہوتا ہے جو کہ سچ نہیں۔اس پرسیپشن کی بنیاد پر ہی یہ سیکٹر پھل پھول نہیں سکا۔ورنہ پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک میں انشورنس بزنس پھیلنے کا وسیع پوٹینشل موجود ہے۔ انشورنس سیکٹر پاکستان کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔جہاں بنکوں کا دبا آتا ہے یا کوئی قانونی ضرورت ہوتی ہے وہاں تو لوگ انشورنس کرواتے ہیں ورنہ ان کے گھر تباہ ہوجاتے ہیں ،گاڑیاں تباہ ہو جاتی ہیں لیکن وہ انشورنس کیطرف نہیں آتے۔اس کی وجہ آگہی میں کمی ہے۔ہم ایف پی سی سی آئی کی سٹنڈنگ کمیٹی کے پلیٹ فارم سے ایک پبلک اوئیر نیس کمپین بھی چلانا چاہتے ہیں۔ہمارہ ماننا ہے کہ رسک کور سب کیلئے اور بیمہ ایمانداری کے ساتھ۔”میرے ان ابتدائی کلمات کے بعد سیمینار کے باقی مقررین نے بھی اپنے اپنے انداز میں فئرنس پریکٹسز پر روشنی ڈالی۔خاص طور پر شکریہ کے مستحق جناب ڈاکٹر محمد خاور جمیل جو فیڈرل انشورنس محتسب کے اہم ترین منصب پر فائز ہیں۔ڈاکٹر صاحب فیڈرل سیکرٹری رہے،انہوں نے 36 برس تک وفاقی اور صوبائی سطح پر خدمات سر انجام دیں ہیں۔میں ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔ ہمارے چیف گیسٹ تھے اور اہم ترین مقرر بھی۔جناب شازیب علی ہمارے مہمان اعزازتھے۔وہ ایس ای سی پی کے کمشنر ہیں اور انہوں نے مذکورہ موضوع پر انتہائی قیمتی آرآء سے نوازا۔جناب شبیر اے گلامالی آئی اے پی کے چئیرمن بھی ہمارے مہمان خاص تھے۔جناب مبشر نعیم صدیقی فیڈرل محتسب انشورنس سیکریٹریٹ کے ڈائریکٹر جنرل ہیں،خاص طور پر حصہ لے رہے تھے۔میاں زاہد حسین معروف شخصیت ہیں۔ سابق صوبائی وزیر ہیں اور وائس چیئرمین ہیں بزنس پینل ایف پی سی سی آئی کے۔ہمارے سرپرست ہیں۔UTSکے مخدوم تاشیریوسف۔الفلاح انشورنس کے CEOجناب عبدالحی مغل اور IAPکے ریجنل ہیڈ محمد ہشام بھی موجودہیں ۔ہمارے سیمینار کے موڈریٹر جناب طارق حسین ایس ای سی پی کے سابق ڈائریکٹر ہیں۔ان کا وسیع تجربہ ہے۔سیمینار کے اختتام پر میں نے سب احباب کا شکریہ ادا کیا اور بتایا کہ اس سیمینار میں سامنے آنے والی تجاویز کو میڈیا کے ذریعے خبر کی صورت میں شائع کیا جائے گا۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ اہم نکات بر مبنی رپورٹ کو متعلقہ لوگوں اور اداروں تک بھی پہنچائیں گے تاکہ انشورنس سیکٹر کی بہتری میں اپنا باقاعدہ حصہ ڈال سکیں۔

written by DrMurtazaMughal@


Leave a Reply