Jul
07
|
Click here to View Printed Statement
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ اعلان کسی مسلمان ملک کے امرا ء کرتے ۔دنیا میں مسلمان ملکوںکی تعداد پچاس کے لگ بھگ ہے ۔بعض ممالک توایسے ہیں جن کے حکمران سونے سے تعمیر کردہ محلات میں رہتے ہیں ،ہیرے جواہر جڑی کاروں میں سفر کرتے ہیں۔ ان کے واش رومز میں لگے کموڈ بھی چاندی کے ڈھلے ہوتے ہیں ۔دنیا کے امیر ترین لوگوں میں دس کا تعلق مسلمان ملکوںسے ہے۔ عربوں کے پاس اربوں کا شمار محال ہے،ان کی بے بہا دولت کے تذکرے میڈیا کی زینت بنتے ہیں ۔پاکستان کے دس امیر ترین لوگوں میں جناب شاہد خان ،جناب میاں محمد منشا ،جناب آصف علی زرداری ،سر انور پرویز،میاں محمد نوازشریف ،جناب صدرالدین ہاشوانی ،جناب عبدالرزاق داؤد،جناب ملک ریاض اور جناب طارق سیگل جیسے لوگ موجود ہیں ۔لیکن بعض ایسے بھی امیر ترین لوگ ہیں جو ایک دو کروڑ کی کمی سے ٹاپ ٹین میں آنے سے رہ گئے ہوں گے ۔جہانگیر ترین ،علیمہ خان ،جنرل کیانی کے بھائی ،علیم خان اور اس طرح کے سیکڑوں پاکستانی ہیں جن کی دولت بے حساب ہے ۔لیکن ایسا اعلان کسی مسلمان ارب پتی کو نصیب نہیں ہوا۔
یہ دنیا کے 180امیرترین لوگ ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ وہ ارب پتی ہیں لیکن انسانیت کیلئے۔ان اغنیا نے اپنی حکومتوں کو ایک کھلاخط تحریر کیا ہے کہ کورونا سے پیدا ہونے والی غربت اور بے روزگاری کا مقابلہ محض خیرات سے نہیں کیا جاسکتا لہذا اس کیلئے ہم امیروں پر بھاری اضافی ٹیکس لگائے جائیں ۔خط کے نیچے تمام امراء نے اپنے نام لکھے اور دستخط کئے ہیں ۔انسانیت کے ان امیر ترین دوستوں نے خط میں لکھا ہے کہ ابھی وقت ہے کہ ہم اس وبا سے بگڑنے والے معاشی توازن کو ٹھیک کرسکتے ہیں ۔حکومتیں جلدی کریں کہیں دیر نہ ہوجائے ۔
جی سیون ممالک نے بھی عالمی مالیاتی اداروںسے کہا ہے کہ وہ فی الفور قرضوں کے اوپر سود معاف کردیں کیونکہ غریب ممالک اس قابل نہیں رہے کہ وہ سود سمیت قرضے ادا کرسکیں ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے ایکبار بھر وارننگ دی ہے کہ کورونا کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے والے ممالک موت سے مذاق کررہے ہیں ۔کورونا سے نپٹنے کیلئے سخت اقدامات کی ضرورت ہے ۔اقوام متحدہ نے خبردارکیا ہے کہ آنے والے سال میں غربت اوربے روزگاری میں ہوشرباء اضافہ ہوجائیگا۔
”دولت برائے انسانیت ”کا اعلان کرنیوالوں کا تعلق پہلی دنیا سے ہے۔چین کے امیر ترین لوگ پہلے ہی اپنی دولت کا ایک حصہ اس وائرس سے نپٹنے کیلئے وقف کرچکے ہیں ۔ہوسکتاہے کہ مسلمان ملکوں کے امیر ترین لوگ بھی غیرمسلم ارب پتی افراد کے قافلے میں شامل ہوجائیں ۔پاکستان کے امیر ترین افراد کا اگر حکومت پر اعتماد بحال ہوجائے تو شائد وہ بھی اپنی دولت پر اضافی ٹیکس لاگو کرانے کیلئے کوئی خط لکھ دیں ۔آخر کورونا کی وجہ سے بہت سی میڈیکل اور ٹیکسٹائل ملوں کو منافع بھی ہورہا ہے ۔
دولت کا چند ہاتھوں میں ارتکاز عوام کی خوشحالی کو آہنی مٹھی میںبند کردینا ہے ۔اسلام نے اس عمل کی سختی سے ممانعت کی ہے ۔اسلام کی منشا تو یہ ہے کہ ضرورت سے جو کچھ زائد ہے وہ اللّہ کی راہ میں خرچ کردو۔جو لوگ دولت جمع کرتے ہیں ان کو دردناک عذاب سے بار بار ڈرایا گیا ہے ۔یہاں تک بتایا گیاہے کہ جزاوسزا کے روز طلائی سکے پگھلاکر ان کی پیٹھوں اور پیشانیوں کو داغا جائے گا ۔جب انسانیت بھوک اور غربت سے مر رہی ہوتو اللّہ کی راہ کونسی ہے ۔ظاہر ہے اللّہ کے بندوں کیلئے سہولتیں پیدا کرنا ہی اللّہ کی پسندیدہ راہ ہے ۔آج وبائی مرض نے کاروبار ٹھپ کردئے ہیں ۔حکومت ویسے ہی ناسمجھ اور ناتجربہ کار ہے ۔لوگوں پر مایوسی کے دورے پڑ رہے ہیں ۔گیلپ سروے کے مطابق پاکستانیوںکی ایک کثیر تعداد اس کرونا اور اس سے پیدا ہونیوالی صورتحال سے نپٹنے کیلئے اپنے گھروں کا سامان بیچ رہی ہے ۔ایسے عالم میں دولت مندوں کی دولت کس کام آئے گی ۔یہ دولت کہاں استعمال کریں گے ،اسے لیکرکہاں جائیں گے ۔اب وقت ہے کہ بگڑتے معاشی نظام کے توازن کوسدھارنے کیلئے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیں ۔اگر حکومت پر اعتماد نہیں تو باہم ملکر کوئی نظام وضع کرلیں ۔لوگوں کو بے روزگار نہ کریں ۔منافع نہیں ہورہا توبھی تنخواہ دیتے رہیں تاکہ گھروں کے چولہے چلتے رہیں ۔اب خیرات سے کام نہیں چلے گا۔اکٹھی کی ہوئی دولت کو بانٹنا ہوگا ۔دولت برائے انسانیت کا نعرہ لگا کر مجبور انسانوں کی زندگیوںمیںآسانی پیدا کرنی ھوگی۔آخرت سنوارنے کا اس سے بہتر موقع شائد پھر نہ مل سکے !