Aug
06
|
Click here to View Printed Statement
پوری دنیا میں جنگوں اور تباہیوں کے نتیجے میں ہر وقت ہجرت اور نقل مکانی کا تکلیف دہ عمل جاری رہتا ہے ۔انسانی زندگی کی دشواریاں بڑھتی رہتی ہیں ۔ہر سال لاکھوں لوگ مہاجر بنتے ہیں،بے گھر ہوتے ہیں ۔یتیم اور بے سہارا بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔بیواؤں اور یتیموں کیلئے زندگی ایک سزا بن جاتی ہے ۔بے بسی کی اس زندگی میں کوئی غم بانٹنے والا ہو ،کوئی پیاسے کو پانی پلائے ،کوئی بھوکے کوکھانا ،کوئی بے گھر کو چھت دے ۔مریض کیلئے دوا پہنچائے اور یتیم کے سر پر ہاتھ رکھے ۔مصیبت کا شکار انسان خوشحال انسانوں سے مدد کی امید لگائے رہتے ہیں ۔اس کار خیر کے لیے پوری دنیا میں ادارے موجود ہیں۔خیرات کرنے والوں کی کمی نہیں اور اس خیرات کو مناسب اور احسن انداز میں ضرورت مندوں تک پہنچانے والی خدمت گار تنظیمیں بھی بڑی تندہی سے یہ کام سرانجام دے رہی ہیں ۔ایک ایسا ہی نامور ادارہ خبیب فاؤنڈیشن بھی ہے ۔
اکرام بخاری دوست ہیں اور ملک کے نامور صحافیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے ۔وہ میڈیا ہاوسز اور اخبارات میں کام کرنے والے بے آوازکارکنوں کی آوازبنے ہیں ،بہت اچھے لکھاری اور شعلہ بیاں مقرر ہیں ۔چونکہ وہ صحافی کارکنوں کی حسرت ناک زندگی کو قریب سے دیکھتے ہیں اس لیے وہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی ضرورتوں کو بھی جانتے ہیں ۔اپنے اندر پائے جانے والے خدمت خلق کے طبعی میلان کے سبب وہ خبیب فاؤنڈیشن منسلک سے ہوگئے ہیں ۔گزشتہ دنوں بخاری صاحب نے مجھے بھی یاد کیا اور کہا کہ سینئر کالم نگاروںکیلئے ظہرانہ پر ایک نشست رکھی ہے ۔بخاری صاحب طویل بیماری کے بعد روبہ صحت ہوئے تھے ،انہیں بستر علالت پر ملا تھا ۔ملاقات کا اشتیاق بھی تھا اور خبیب فاؤنڈیشن کے بارے میں بھی ایک تجسس بھی ۔
فاؤنڈیشن کے چیئرمین جناب ندیم احمد خان نے استقبال کیا اور اپنے قریب ہی بٹھا لیا۔کمال کے متحرک اور باحوصلہ انسان ہیں ۔فلاحی کام کرنا پاکستان میں بڑا مشکل ہو گیا ہے ۔میں ایک ٹرسٹ بنا کر بند کرچکا ہوں ۔سرکاری منکر نکیر اسقدر زچ کر لیتے ہیں کہ انسانوں کی خدمت کی بجائے کہیں بھاگ جانے کو جی چاہتا ہے ۔لیکن خان صاحب گزشتہ بیس برس سے اس کار خیر میں جتے ہوئے ہیں ۔خبیب فاؤنڈیشن کی فلاحی اور رفاحی سرگرمیاں نہ صرف پاکستان میں ہر وقت جاری رہتی ہیں بلکہ بیرون ممالک بھی اس کی شاخیں پوری مستعدی کے ساتھ دکھی انسانیت کا دکھ بانٹنے میں مصروف ہیں ۔یہ خان صاحب کی انسانیت سے غیرمشروط محبت ہی تھی جس کے تحت خبیب فاؤنڈیشن نے سامان خوردونوش سے بھرا ہوا بحری جہاز فلسطین پہنچانے کا عزم کیا ۔اور پھر اسرائیل نے جو کیا اور جس طرح جان جوکھوں میں ڈال کر خبیب کے کارکن اور صحافی فلسطینیوں تک پہنچے وہ انسانی تاریح کی ایک عظیم داستان ہے۔شام کے مہاجر ہوں یا کشمیر کے مظلوم مسلمان۔یہ زلزلے کی تباہی ہویا سیلاب کی صورتحال ۔غریب بچوں کی تعلیم کا معاملہ ہو یا یتیم بچوں کیلئے بورڈنگ ہاؤس کی تعمیر ۔آپ ہر محاذپر فاؤنڈیشن کو صف اول میں پائیں گے ۔اس فاؤنڈیشن کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ ان کی طرف سے دی جانے والی امداد عارضی نہیں بلکہ ضرورتوں کے عین مطابق ہوتی ہے ۔اگر مالی مدد ہے تو وہ بھی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کسی ضرورت مند کی مکمل طور پر بحالی نہیں ہوجاتی ۔آپ حیران ہونگے کہ ندیم احمد خان نے زلزلہ میں جن بے سہارا بچوں کی ذمہ داری اٹھائی تھی انہیں راستے میں نہیں چھوڑا بلکہ آج وہ بچے یونیورسٹیوں تک پہنچ چکے ہیں ۔ہر سال عید قربان پر فاؤنڈیشن کے زیر انتظام پوری دنیا میں سینکڑوں جانور ذبع ہوتے ہیں اور فاؤنڈیشن کے کارکن یہ گوشت ضرورتمندوں اور قیدیوں میں بانٹتے ہیں ۔یہی نہیں بلکہ بعض لوگوںکو پکا کر کھاناکھلاتے ہیں ۔اسی طرح رمضان کے مقدس ماہ میں افطار ڈنرکا ایک خوبصورت سلسلہ چل پڑتا ہے اور خان صاحب خود بھی ایک کارکن کی طرح انتظامات میں لگ جاتے ہیں ۔خبیب فاؤنڈیشن کی سرگرمیاں دیکھ کر میں دعوے سے کہ سکتا ہوں کہ یہ فاؤنڈیشن عالم اسلام کا مایہ ناز فلاحی ادارہ بن چکا ہے ۔جو مخیر لوگ اور ادارے اور تنظیمیں خبیب فاؤنڈیشن کے فلاحی منصوبوں کیلئے فنڈز فراہم کرتے ہیں وہ لائق تحسین ہیں وہ افضل ہیں اور ان کا ثواب رب کریم کے پاس محفوظ ہے ،
قران مجید میں اللہ پاک فرماتے ہیں کہ ،
”جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کا ثواب ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہوگا اور نہ غم”
حدیث مبارکہ ہے کہ دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے افضل ہے ۔ایک اور حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر ۔۔خدا مہرباں ہوگا عرش بریں پر