Sep
09
|
Click here to View Printed Statement
مغرب اور مشرق میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ مغرب اپنے فیملی سسٹم کو تباہ کرچکا ہے اور مشرق اس نظام سے ابھی تک جڑا ہوا ہے۔اگرچہ ہمارے ہاں بھی یہ بحث چھیڑ دی گئی ہے کہ خاندانی نظام کا آخر فائدہ کیا ہے؟میرے نزدیک اس نظام کا سب سے بڑا فائدہ حال ہی میں کرونا وباء کے دوران سامنے آیا ہے۔کتنے ہی ایسے مریض تھے جنہیں ان کے بہن بھائیوں اور عزیز واقارب نے سنبھالا۔حالانکہ شروع شروع میں حکومت کیطرف سے بہت سختی کی گئی تھی۔کورونا کے مریض کو اچھوت سمجھ کر سرکاری ہسپتال میں بے یارو مدد گار چھوڑ دیا جاتا تھا۔لیکن یہ بہن بھائی اور ماں باپ ہی تھے جو بارش اور دھوپ میں وارڈ کے باہر کھڑے رہتے تھے اور ڈاکٹروں سے التجائیں کرتے تھے کہ ایک بار ان کو اپنے مریض کو دیکھ لینے دیں۔جب ادوایات کی فراہمی عام ہوگئی تو گھر والوں نے اپنے مریض کو گھر میں ہی آئسولیٹ کیا اور انہوں نے مریض کو نفسیاتی طور پر بے سہارا نہیں ہونے دیا۔
آزمائش کے دوران ہمدردی کے دو بول ہی بہت بڑا نفسیاتی سہارا بن جاتے ہیں۔پاکستان میں تو بہن بھائی ہر طرح کا خطرہ مول لیکر اپنے پیاروں کا سہارا بن جاتے ہیں۔مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہوا ہے۔میں بھی کورونا کا شکار ہوا اور گھر میں صاحب فراش ہوگیا۔لیکن میرے بیوی بچوں نے مجھ سے دوری اختیار نہیں کی۔میری چھوٹی بیٹی منسا رباب تو میرے ساتھ اٹھکیلیاں کرتی اور چلبلی باتیں کرکے ہنساتی رہتی تھی۔اس کا اثر بیماری کیخلاف میری قوت مدافعت پر پڑا۔میں نفسیاتی طور پر مظبوط ہو گیا۔دوائیوں نے اثر کرنا شروع کردیا اور میں صحت مند ہوگیا۔یقین جانیں اگر گھر والے مجھے ایک کمرے میں پھینک کر دور ہٹ جاتے اور کھانا بھی کھڑکی سے پھینکتے تو میں مرض کیخلاف شائد ہی لڑ پاتا۔مغرب کی حالت آپ کے سامنے ہے۔امریکہ اور اٹلی کی ایسی ایسی ویڈیوز سامنے آچکی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ کورونا کا شکار مریض کس قدر تنہائی کے ہاتھوں لاچار ہوئے ہیں۔مغربی دنیا میں آزمائش نے سماج کے کھوکھلے پن کو بری طرح ظاہر کیا ہے۔بہترین ہسپتال ہیں۔مسکراتی ہوئی نرسیں ہیں۔ادویات اور آلات ہیں۔لیکن اپنا کوئی نہیں۔ہمدردی کے دو بول میسر نہیں۔دور ایکدوسرے سے بہت دور۔اپنی اپنی زندگی۔زندگی میں اپنی اپنی مرضی۔آزادی اور بے سمت آزادی۔خاندانی نظام کی جگہ ریاست نے لی لیکن ریاست تو ایک مشین کے طور پر کام کرتی ہے وہ ماں باپ کا نعم البدل کیسے ہوسکتی ہے۔امدادی ادارے بہن بھائی کی اپنائیت کہاں سے لائیں۔آپ یہ سن کر حیران ہونگے کہ آسٹریلیا میں لوگوں کو تنہائی کے سبب پیدا ہونے والی نفسیاتی پریشانیوں سے چھٹکارا دلانے کیلئے کورونا امداد کے علاوہ کروڑوں ڈالر مختص کرنا پڑے ہیں۔یادرہے کہ آسٹریلیا جو انتہائی خوشحال اور پرامن ملک سمجھا جاتا ہے وہاں ڈیپریشن سے ہر سال ساڑھے تین ہزار نوجوان خود کشیاں کرتے ہیں۔ایک اندازے کیمطابق اس سال خودکشیوں کی تعداد دگنی ہوجائے گی۔کیونکہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا کوئی دکھ بانٹنے والا نہیں۔کوئی بغیر لالچ کے قریب آنے پر تیار نہیں۔
خاندانی نظام کی بنیاد ایک جگہ رہنا نہیں بلکہ رشتوں کا احساس ہے۔ایکدوسرے کا سہارا بننے کا عہد ہے ۔ جب مرد اور عورت نکاح کرتے ہیں تو بیوی اور خاوند کے حقوق پورے کرنے کا عہد لیا جاتا ہے۔ جب نیا جوڑا رشتہ ازدواج میں بندھ جاتا ہے تو دراصل نسل انسانی کو بڑھانے اورپیدا ہونیوالے انسانوں کی بہترین پرورش کرنے کا ایک نیا یونٹ بن جاتا ہے۔اس یونٹ کو کامیاب بنانے کیلئے نانا نانی،دادا دادی،بہن بھائی،چاچے مامے،خالائیں اور پھوپھیاں موجود ہوتی ہیں۔اسی لیے اسلام نے خونی رشتہ داروں کے بھی حقوق بیان فرما دئیے ہیں۔خاتم النبیین رسالت مآب حضرت ۖ نے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا درس دیا ہے۔آپ ۖ اپنے رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتے تھے ۔حضرت فاطمہ اور حضرت امام حسین اور امام حسن سے محبت مثالی تھی ۔آپ ۖ اپنے دادا اور اپنے چچا سے بے پناہ قربت رکھتے تھے ۔حضرت حمزہ رضی اللہ اپنے بھتیجے پر جان نچھاور کرتے تھے ۔آپ ۖ نے ارشاد فرمایا،
”آپس میں تحائف دیا کرو،ایکدوسرے کو کھانا کھلایا کرو اور رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کیا کرو۔جنت میں داخل ہوجاؤ گے۔”
ہمیں ہمارا میڈیا بھائی کو ظالم دکھاتا ہے،ماں کو جانبدار دکھاتا ہے اور باپ کو لاتعلق۔بہنوں کو سازشی اور بیٹوں بیٹیوں کو خود سربتایا جاتا ہے ۔یہ سب ایک منصوبے کے تحت ہورہا ہے ۔خاندان سے بیزار کرکے خدائی یونٹ کو توڑنے کی سازش ہے ۔مقدس رشتوں کو مشکوک بنانا سب سے بڑا فتنہ ہے۔رشتوں کو سنبھالیں ۔اگر رشتہ دار کھلی زیادتی بھی کررہے ہیں تو بھی برداشت کریں ۔معاملات بہت بگڑنے لگیں تو خاموشی اختیارکرلیں۔کسی خوف کے سبب کے نہیں بلکہ اپنے رب کی رضا کی خاطر۔ورنہ یہ رشتے ٹوٹ جائیں گے ۔ہمارا رب بھی ناخوش ہوگااور ہم تنہائیوں کے گھپ اندھیروں میں گم ہوتے جائیں گے ۔