Sep
16
|
Click here to View Printed Statement
افسوس کہ ہمارے ہاں کامیابی اور ناکامی کے معیار اقدار پر استوار ہونے کی بجائے اختیاروزر اور اقتدار جیسی مصنوعی بنیادوں پر اٹھائے جارہے ہیں۔جو لوگ اصولوں کیساتھ زندگی گزارتے ہیں وہ ہمارے نزدیک ناکام،بھولے اور بیوقوف قرار پاتے ہیں۔جھکنے والے رفعتیں پاتے ہیں اور بااصول لوگ راندہ درگاہ ہوجاتے ہیں۔ہمارے معاشرے کے بگاڑ کا سبب بھی یہی غلط معیارات ہیں۔ہمارے دین نے ہمیں حق کی گواہی دینے کا درس دیا ہے۔اسلام کی ابتدا ہی کلمہ حق کہنے سے ہوئی تھی۔حق گوئی ایک اعلی وصف سمجھا جاتا تھا۔بااصول انسان کی توقیر ہوتی تھی۔سچ بولنے والے کو بہادر ہونے کا لقب ملتا تھا۔جابر سلطان کے سامنے ڈٹ جانے والے عوام کیلئے روشنی کا مینار ہوتیتھے۔معاشرہ انہی روشن میناروں کی روشنی میں صراط مستقیم پر چلتا رہتا تھا۔جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد ہمارے معاشرے کیلئے روشنی کا مینار ہیں۔ لیکن افسوس کہ کچھ کم ظرفوں نے اس روشنی کے اس مینارکو گرانے کی کوشش کی۔
جسٹس وجیہہ الدین نے جنرل پرویز مشرف کے سامنے جھکنے سے انکار کردیا۔تحریک انصاف کے اندر مالی اور سیاسی بے ضابطگیاں پکڑیں اور عمران خان سے کہا کہ وہ غلط لوگوں سے نجات پائیں۔وہ سندھ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس تھے تو سندھ ہائیکورٹ کے معاملات کو بغیر کوئی حکم سنائے درست کیا۔ان کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ حکم نہیں سناتے۔وہ قانون کا صرف حوالہ دیتے ہیں اور گنہگاروں کو یقین ہوتا ہے کہ جسٹس صاحب قانون پر عملدرآمد کروا کر رہیں گے۔وہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سینئر جسٹس رہے۔انہیں بہت عزت ملی۔انہوں نے سی پی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کر دیا۔وہ چیف جسٹس بحالی تحریک کے روح رواں رہے۔دہلی میں پیدا ہوئے اور آزادی کے سال کراچی منتقل ہوگئے تھے۔جسٹس صاحب کے والد نے ان کی تربیت اصول پسندی پر کی۔اور یہی اصول پسندی آج بھی ان کی شخصیت کا طرہ امتیاز ہے۔وقت لیکر ان کی رہائش گاہ واقع ڈی ایچ اے کراچی حاضر ہوا۔بڑی شفقت سے پیش آئے۔یہ طویل نشست تھی۔چیدہ چیدہ نکات اس طرح ہیں۔میں نے عرض کی کہ جسٹس صاحب،بیت اللہ الحرام کی تعمیر کے بعد سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے مکہ مکرمہ کے لیے جو دعائیں کیں ان میں سے ایک دعا یہ بھی تھی: رب اجعل ھذا بلدا آمنا وارزق اھلہ من الثمرات.( البقرہ:) اے میرے رب! اس کو پر امن شہر بنادیجئے اور یہاں کے رہنے والوں کو قسم قسم کے پھلوں سے رزق عطا فرمائیے۔ پاکستان بھی اسلام کی بنیاد پر بنا۔لیکن یہاں نہ امن ہے نہ رزق وافر ہے؟جسٹس صاحب فرمانے لگے کہ خوشحال معاشروں کیلئے پہلی شرط امن ہے۔اس دعا میں بھی پہلی بات امن کی گئی ہے۔افسوس کہ ہم اپنے ملک میں پہلی شرط ہی پوری نہیں کرسکے۔پھر انہوں نے کچھ وجوہات تفصیل سے بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سربراہ مملکت سے لیکر ہر ادارے کا سربراہ اہل اور امانت دار ہونا ضروری ہے۔فنانشل مینیجمنٹ ملکی ضرورتوں کے تابع ہونی چاہیے۔یہ نہیں کہ کسی کے دبا پر آپ اپنے روپے کی قدر گھٹاتے جائیں اور دن بدن مقروض ہوتے جائیں۔یہ عمل تجوری میں چھید کرنے کے مترادف ہے۔غریب لوگوں کے بارے میں اعدادوشمار کا حوالہ دیکر جسٹس صاحب نے بتایا کہ عام مزدور کی تنخواہ اس وقت پچھتر ہزار روپے ماہانا ہونی چاہیے۔جسٹس صاحب نے کہا کہ کرپشن پر زیرو ٹالرینس ہونی چاہیے۔ان کے اسی مقف کی وجہ سے ہی شائد پارٹی سے نکال دیا گیا تھا کیونکہ انٹراپارٹی الیکشن میں ہر طرح کی کرپشن سامنے آئی تھی۔میڈیا کے بارے میں جسٹس وجیہہ الدین کہہ رہے تھے کہ ملک کے دیگر شعبوں کیطرح یہ شعبہ بھی زوال کا شکار ہے۔میرا خیال تھا کہ وہ وزیراعظم عمران خان پر براہ راست تنقید کریں گے لیکن میری امید کے برعکس انہوں نے اپنی گفتگو کو اصولی بات چیت تک محدود رکھا۔حالانکہ جب انہوں نے تحریک انصاف کی مسلسل ناانصافیوں سے تنگ آکر استعفی دیا تھا تو شدید تنقید کی تھی جو قومی اخبارات میں شہہ سرخیوں کیساتھ شائع بھی ہوئی تھی۔80 برس کے جسٹس صاحب ایک مشعل کی مانند پوری آب وتاب کیساتھ اصول پسندی کی روشنی بانٹ رہے ہیں۔افسوس کہ ہم بحیثیت قوم روشنی کے ان میناروں کے قریب جانے سے ہچکچاتے ہیں۔ہمیں خطرہ رہتا ہے کہ کہیں ہم اپنی خود غرضی،جھوٹی انا اور فریب کاری کے اندھیروں سے باہر نہ آجائیں۔