Sep 02

Click here to View Printed Statement

بارشوں نے شہروں کے چھپے ہوئے گند کو ہی نہیں اچھالا ہمارے دل ودماغ میں بھری ہوئی بدبو کو بھی شاہراہوں پر انڈیل دیا ہے ۔سیاستدان،میڈیا اور سوشل میڈیا صارفین سب کسی دلچسپ ویڈیو کی تلاش میں ہیں ۔کسی ڈوبتے ہوئے ٹینکر کی تصویر مل جائے ،کسی گٹر میں پھنسے ہوئے بچے کی لاش مل جائے ،کوئی چوتھی منزل سے چھلانگ لگاتا دکھائی دے جائے ،کسی کے گھر پانی گھسے اور دوشیزائیں بھاگتے ہوئے نظر آجائیں ،کسی عورت کا لخت جگر بپھری لہروں میں بہہ جائے۔کہیں سے کچھ ایسا مل جائے جس سے تقریر دلپذیر ہوسکے ،جس سے ریٹنگ بڑھ سکے اور جس سے ویڈیو کلپ وائرل ہوجائے ۔مجھے ایک ویڈیو کلپ دیکھ کر بیحد دکھ ہوا کہ درجنوں لوگ اپنے موبائل فون لیے ایک پل کے بہہ جانے کی ہنس ہنس کر ویڈیو بنا رہے ہیں۔پانی کا بہاؤ اسقدر شدید تھا کہ دو تین منٹوں میں لوگوں کی آنکھوں کے سامنے وہ پل اڑ گیا اور لوگوں نےِِ”وہ گیا،وہ گیا ”کے مسرت بھرے قہقے لگائے ۔

یہ کسی دشمن ملک کا پل نہیں تھا اور نہ ہی اس کے ٹوٹنے سے کوئی فتح ملنے والی تھی ۔بلکہ رابطہ منقطع ہونے سے لاکھوں لوگوں کا روزگار تباہ ہونا تھا اورعام لوگوں کا ایک بہت بڑاذریعہ آمدورفت ختم ہونے جارہا تھا۔لیکن ہمارے نوجوانوں کے لیے یہ دل لگی کا ساماں تھا ۔کسی ایک نے نہیں روکا کہ بھائیو ہم پل کو تو نہیں بچا سکتے لیکن آو! ٔاللہ کے حضور گڑگڑا کر دعا کریں کے وہ بارش کی اس آفت کو ٹال دے اور ہمارے گھر ڈوب جانے سے بچ جائیں ۔شائد ہمارا مزاج ایسا بن گیا ہے کہ حکومت بھی شغل میں خوش رہتی ہے ،میڈیا بھی شغلی ہوچکا ہے اور ہم سب بھی مشغلوں کے عادی بن گئے ہیں ۔پہلی قوم دیکھی ہے جو اوروں کی تباہی پر خوش ہوتے ہوتے اب اپنی تباہی پر بھی خوش ہونے کی عادی ہوگئی ہے ۔
کراچی میں کیا کچھ نہیں ہوچکا۔اس عروس البلاد شہر کو اجاڑنے میں کسی نے کوئی کمی نہیں چھوڑی۔کچرا یہاں سے اٹھایا ہی نہیں جاتا،پینے کا پانی یہاں دستیاب نہیں ہوتا،بجلی یہاں سے غائب رہتی ہے ۔تجاوزات کی بھر مار ہے ۔سٹریٹ کرائم زوروں پر رہتا ہے ۔اور بارش نے ہر طرف طوفان نوح برپا کیا ہے ۔غریبوں کی جھونپڑیاں ندی نالوںکی نظر ہوگئیں اور ڈیفنس کے بنگلوں میںبھی گٹرکا پانی گھس گیا۔غریب غربا ہی نہیں سیٹھ اور امرا بھی سڑکوںپر پڑے دیکھے۔کارخانے ڈوب گئے اور ائیربیس بھی آبی ریلوں سے بچ نہ سکی ۔سب پر پانی پھر گیا۔صوبائی حکومت کی نااہلی تو مسلمہ ٹھہری ،مرکزی حکومت نے بھی صورتحال کا صرف لطف اٹھایا ۔اداروں کی صلاحیت بھی کھل کر سامنے آگئی۔ریاست کی بے بسی نے خطرے کے گھڑیال بجادئے لیکن ہمارا تماش بینی والا مزاج جوں کاتوںہے ۔ایک دوسرے کو نوچنے اور بھنبھوڑنے کے سوا کوئی تعمیری سوچ عنقا رہی ہے ۔کوئی خوف خدا ہمارے وجود کو چھو نہیںپارہا۔ایک طرف دل دہلادینے والے مناظر ہیںاوردوسری طرف ہمارے بے حسی کے قہقے ہیں ۔جب انسان بے بس ہوجاتے ہیں تو وہ توبہ کرتے ہیں اورپروردگار سے معافی مانگتے ہیں ۔لیکن ہماری بے حسی کی انتہا ہے کہ ہم اپنی موت پر آپ ہی رقص کرنے کے خواہش مند دکھائی دیتے ہیں ۔اللہ کی طرف رجوع نہیں کرتے ۔میڈیابھی صرف انہونی دکھاتا ہے لوگوں کو اچھائی کی طرف مائل ہونے ہی نہیں دیتا۔
لوگ پانی میں گردن گردن تک ڈوبے مدد کو پکار رہے ہیں لیکن ہمارے ٹی وی انہیں نئے موبائل سیٹ اور ہاؤسنگ پراجیکٹ کے اشتہار دکھا رہے ہیں ۔وہ بھوک اور پیاس سے مر رہے ہیں لیکن ٹی وی سکرین انہیں کوکا کولا پینے کی ترغیب دے رہا ہے ۔ہم گنہگار اورظالم ہونیکی ہر صفت پر پورا اتررہے ہیں اورپھر گلا کرتے ہیں کہ یہ مصیبتیں کیوں آرہی ہیں ۔سورة بقرہ میں ارشاد ہوتا ہے ،
”ہم نے نازل کی ان ظالموں پر ایک آفت سماوی اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کرتے تھے”
پھر سورة شوری میںفرمایا،
”اورتم کو جو کچھ مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے ہی ہاتھوں کئے ہوئے کاموں سے پہنچتی ہے”
اس میں کیا شک ہے یہ آفتیں ،بیماریاں اور مصیبتیں بطور انسان اور مسلمان ہماری آزمائش کے لیے ہوتی ہیں۔افسوس کہ ہم بحیثت قوم ان آزمائشوں میں ایک تماشا دیکھنے والی قوم بن کر سامنے آئے ہیں ۔اللہ ہماری کوتاہیوں کومعاف فرماکر ہمیں سدھری ہوئی قوم بنا دے ،ورنہ ہماری حالت تو اس شعر کے مصداق ہے ،
بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

written by DrMurtazaMughal@


Leave a Reply