Apr
29
|
Click here to View Printed Statement
موذی وائرس کوڈ 19 انسان ساختہ ہے یا قدرتی اس راز سے تو شائد ہی کبھی پردہ اٹھ سکے لیکن اس وباء کی نتیجے میں ہر قوم اور ملک کی صلاحیتوں کا خوب اندازہ ہوگیا ہے۔پہلی دنیا اور تیسری دنیا برابر کھڑے ہیں بلکہ ترقی یافتہ اقوام اس وائرس کے سامنے مکمل طور پر بے بس دکھائی دیئے ہیں۔عالمی رہنماؤں کے رویے بھی دلچسپ رہے ہیں۔عدم یکسوئی نے بڑی بڑی شخصیات کے کھوکھلے پن کو ظاہر کردیا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ جن کی متلون مزاجی سے سیاسی لطیفے جنم لیتے رہتے ہیں انہوں کرونا وائرس سے نپٹنے کیلئے انتہائی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے۔صدر ٹرمپ اپنی ریاستوں پر باربار حملہ آور ہوئے ہیں۔وہ کرونا کے علاج کیلئے الٹےسیدھے طبی مشورے بھی دیتے رہے ہیں۔جراثیم کش ادویات کے استعمال کا مشورہ بھی ٹرمپ نے ہیدیا ہے۔امریکی صدر پر مخبوط الحواس ہونے کی پھبتیاں کسی جارہی ہیں۔ ٹرمپ کی توجیہات اور راجہ بازارمیں بیٹھے کسی سنیاسی بابا کے مشوروں میں کوئی فرق نہیں۔چونکہ ہمارے وزیر اعظم کا بھی صدر ٹرمپ کےدوستوں میں شمار ہوتا ہے اس لئے پاکستان بھی کورونا سے نپٹنے میں عدم یکسوئی اور فکری افرا تفری کا شکارہے۔
پاکستان کے اندر لاک ڈاؤن کے دوران انتہائی شرمناک مناظردیکھنے کو ملے جن کا عمومی سا جائزہ ہماریسماجی ،سیاسی اور انتظامی حالت زار کو واضع کردیتا ہے۔کونساشہر اورقصبہ ہے جہاں لاک ڈاؤن پرعملدرآمد کروانے کیلئے پولیس کو تشدد کا سہارا نہیں لینا پڑا۔بعض جگہوں پر روزگار کیلئے باہر نکلنےوالےمزدوروں کو پولیس نے گھیرگھیر کر مرغا بنایا اور جگہ جگہ مرغا پریڈ کروائی گئی۔پھر ان کارناموں کی ویڈیوبنا کر وائرل بھی کروائی گئیں۔ اسی طرح کراچی اور رائے ونڈ میں حاجی نمازی قسم کے شہریوں نےپولیس پر حملے کیے ۔پولیس افسران کو گھروں میں پناہ لینا پڑی۔زائرین اور تبلیغی جماعت کے لوگوں کووائرس پھیلانے کا ذریعہ قرار دیاگیا اوریہ کسی مسلک کیطرف سے نہیں ہوا بلکہ حکومتی ترجمانوں کی بریفنگ سے انتشار پھیلا۔پاکستان شائددنیاکا واحد ملک ہے جس میں کرونا کے مشتبہ مریضوں کیساتھ مجرموں بلکہ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا گیا۔سوشل میڈیا پر اس حوالے سے متعدد ویڈیو کلپ اپ لوڈ ہوئے جن سے پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔
جو کچھ آئسولیشن سنٹر کے اندر ہوا وہ ایک الگ داستان ہے۔سینکڑوں شہریوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح خیمہ بستیوں میں مقید کیا گیا۔رائے ونڈ اورسکھر میں انسانیت کی تذلیل کی گئی۔ڈاکٹروں تک کو حفاظتی کٹس سےمحروم رکھا گیا ۔کورونا سے متاثر ہونے والے ڈاکٹروں کا کہیں بھی رونا دھونا کام نہیں آیا۔لاک ڈاؤن کےمعاملے پر مرکز اور صوبہ سندھ میں سرد جنگ نے صحافتی اور سیاسی محاذ گرمائے جو اب بھی گرماگرم ہیں۔تحریک انصاف کی حکومت نے اپنی نااہلیوں کوچھپانے کیلئے پی پی پی کی صوبائی حکومت کی اہلیت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا۔وزیر اعظم پاکستان کے مؤقف کو درست ثابت کرنے کیلئے سندھ کے گورنر نے تاجروں کو صوبائی حکومت کے لاک ڈاؤن کیخلاف بغاوت پر امادہ کیا۔پی پی پی کے لوگوں نے بھی عمران خان پرجوابی وار کیے۔بقول شاعر،
ایک دوسرے سے بچ کر نکلنا محال تھا ۔ایک دوسرے کو روندکر آنا پڑا ہمیں
اور اپنے دئے کو چاند بتانے کے واسطے۔بستی کا ہر چراغ بجھانا پڑا ہمیں
اچھے واقعات بھی ہوئے۔جماعت اسلامی نے اپنی فلاحی تنظیم الخدمت کے تحت ضرورت مندوں کیدہلیز پر راشن پہنچایا۔اپنے ہسپتال اور ایمبولینس گاڑیاں صوبائی حکومتوں کے حوالے کردیں۔امیر جماعت اسلامی نے کورونا کیخلاف آگاہی مہم کی سرپرستی کی اور جماعت کے تمام کارکنوں کو لوگوں کی مدد کیلئےمتحرک کردیا۔اسی طرح دعوت اسلامی والوں نے تھیلیسیمیا کے مریضوں کو خون فراہم کیا اور کورونہ سےمرنے والوں کی تجہیز وتکفین کرنے کا بندوبست کیا۔اور اب بھی اس کار خیر میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ ن نے بھی وینٹلیٹرز اور ماسک تقسیم کئے اور ن لیگ کے بعض ایم پی ایز نے اپنے حلقوں میں راشن بھی بانٹا۔بہت سی سماجی تنظیموں نے اپنے طور پر راشن پہنچانے کا اہتمام کیا ہے۔مغل برادری کی تنظیمیں بھی اس محاذ پر سرگرم دکھائی دیں۔تنظیم مغلیہ جہلم نے مغل ویلفئر فورم کی معاونت سے رمضان راشن گفٹس کا وسیع بندوبست کیا اور جہلم شہر اور مضافات میں یونین کونسل کی سطح پر یہ گفٹس تقسیم کئے۔
کورنا کب ٹلے گا اس کا کسی کو علم نہیں لیکن ہمارے رویے کب تبدیل ہونگے یہ ہمارے بس میں ہے۔انسانوں کی کمزوریاں اور خوبیاں آزمائشں کے دوران ہی سامنے آتی ہیں۔ہمیں اپنی خوبیوں اور خامیوں کاایک پار پھر اندازہ ہوگیا ہے۔ہمیں بحثیت ایک مسلمان قوم کے قرآن سے ہی رہنمائی لینی ہے اور ایک بلند کردار قوم بن کر اس وباء پر قابو پانا ہے !