Nov
18
|
Click here to View Printed Statement
راقم نے آئی جی سندھ کے اغواء کے حوالے سے چند روز قبل “سندھ پولیس کو سیلوٹ”کے عنوان سے کالم لکھا تھا جسے آئی جی مشتاق مہر صاحب نے پڑھا اور شکریہ کا پیغام بھی بھیجا۔میرا خیال ہے کہ پولیس کلچر میں یہ ایک انوکھا واقعہ تھا کہ اپنے سربراہ کی عزت کی خاطر اور پولیس کے مورال کو بلند رکھنے کیلئے افسران نے احتجاجا رخصت پر جانے کا فیصلہ کیا۔ہمارے ہاں پولیس کے بارے میں عمومی تصور یہ ہے کہ چھوٹے افسروں اور سپاہیوں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے وہ اگر کوئی کارنامہ سر انجام دے بھی دیں تو مقامی ایس ایچ او کریڈٹ اپنے نام کرتا ہے۔اور انعام وغیرہ کے معاملے میں اعلی افسران ہی حقدار ٹھہرائے جاتے ہیں۔حال ہی میں ہم ایسا منظر پنجاب میں دیکھ چکے ہیں۔
سانحہ موٹر وے لاہور میں مجرم کی گرفتاری پر رکھا گیا انعام اعلی پولیس افسران میں تنازعہ کا سبب بنا رہا۔لیکن سندھ پولیس نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے حوالے سے منفی تائثر کو نہ صرف زائل کیا بلکہ انتہائی شاندار مثال قائم کی۔اے ایس آئی محمد بخش نے کسی انعام کے لالچ میں مظلوم ماں کی مدد نہیں کی تھی،نہ ہی اس جونئیر پولیس افسر کی بیٹی نے کسی شہرت کی وجہ سے خود کو خطرے میں ڈالا تھا۔اس متوسط طبقہ کے گھرانے نے جب بدنصیب عورت کی داستان سنی تو خالص انسانی ہمدردی کے جذبے سے سرشار ہوکر سماج کے ظالم درندوں کو پکڑنے اور مظلوم ماں کی معصوم بیٹی کو بازیاب کرانے کا منصوبہ بنایا۔محمد بخش نے ساری کہانی بیان کی۔اس نے بتایا کہ اس کی بہادر بیٹی نے گرفتاری کا ذریعہ بننے کیلئے خود کو جب رضاکارانہ طور پر پیش کیا تو شفقت پدری آڑے آئی اور وہ آبدیدہ ہوگیا۔پھر بیٹی نے تسلی دی”ابا مجھ پر بھروسہ رکھو،میں اسے گریبان سے پکڑ لوں گی،آپ پستول گھر میں رکھ دیں،آپ جذباتی ہو کر خون کردیں گے اور ہم مصیبت میں پڑ جائیں گے”یہ کوئی آسان مرحلہ نہ تھا۔مجرم کچھ بھی کرسکتا تھا۔لیکن جونہی اس درندے نے نقاب ہٹانے کو کہا،بہادر بیٹی نے لپک کر اسے گریبان سے پکڑ لیا،اتنی دیر میں گھات میں کھڑے اے ایس آئی اور سفید کپڑوں میں ملبوس دیگر پولیس اہلکاروں نے اس درندے کو دبوچ لیا۔پھر جسطرح مظلوم عورت کی زخمی اور بیہوش بیٹی پانچ سالہ علیشا کو عقوبت خانے سے تلاش کیا گیا سب ایک ڈرامائی منظر لگتا ہے۔لیکن سندھ کے شہر کشمور میں پیش آنے والا یہ ایک حقیقی واقعہ ہے۔محمد بخش کی جرآت اور فرض شناسی کا جب چرچہ ہوا اور مایوسیوں کے مارے سماج کو امید اور یقین سے مزین ایک خبر سننے کو ملی تو ہر طرف سے دادو تحسین وصول ہو نا شروع ہوئی۔وزیر اعظم پاکستان نے اے ایس آئی محمد بخش سے فون پر بات کی،سندھ کے اس پولیس افسر کو قومی ہیرو قرار دیا۔محمد بخش نے بتایا،”میرے ایس ایچ او نے سب سے پہلے مجھے شاباش دی،ساتھیوں نے مجھے تھپکیاں دیں اورسندھ حکومت نے دس لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا اوربہادر بیٹی کے تعلیمی اخراجات اٹھانے کا اعلان کیا”لیکن آئی جی مشتاق مہر نے اپنے قابل فخر افسر پر کمال شفقت فرمائی۔سنٹرل پولیس آفس کراچی میں محمد بخش اور اس کی فیملی کا پرتپاک استقبال کیا۔اس عظیم باپ،بیٹی اور بیوی کو شاہی بگھی پر بٹھایا گیا،پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں، مہمان خصوصی محمد بخش کو مالائیں پہنائی گئیں۔پولیس بینڈ نے سلامی دی اور استقبالی چبوترے پر آئی جی نے اس چھوٹے سے او رغریب سے اے ایس ائی کو گلے لگایا۔ پولیس ڈیپارٹمنٹ کیطرف سے بیس لاکھ روپے کا اعلان کیا۔اور ستارہ شجاعت دینے کی سفارش کی جبکہ بیٹی کیلئے ستارہ امتیاز کی سفارش کی۔سندھ پولیس نے دوسری بار اعلی کردار کی مثال پیش کی۔پہلے اپنے آئی جی کیلئے اتحاد اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا اور اب اپنے ایک اے ایس آئی کی حوصلہ افزائی کیلئے دل فرش راہ کردیا۔پولیس کے بارے میں منفی رویوں کو تبدیل کرنے کا بہترین موقع فراہم کیا ہے۔ہمیں نیکی کے کاموں میں تعاون کرنے کا حکم ملاہے۔اسی حکم کو بجا لاتے ہوئے اپنے دل سے،سندھ پولیس کو ایک اور سیلوٹ پیش کرتا ہوں۔