Oct
14
|
معجزاتی اور تیزرو طریقہء علاج
Uncategorized
Add comments
|
گزشتہ چند برسوں میں ہومیو پیتھی پاکستان میں بھی علاج کا مقبول طریقہ بن گیا ہے اور ملک بھر میں 70 ہزار ہومیو پیتھ موجود ہیں۔ لاکھوں افراد ان سے علاج کراتے ہیں۔ اس طریقہ ء علاج کو میڈیکل انشورنس کی کمپنیاں اور ایلو پیتھک ماہرین غیر مؤثر طریقہ سمجھتے ہیں۔اس کی بڑی وجہ ایلو پیتھک طریقہ علاج سے جڑے مالی مفادات ہیں۔کمیشن اور کمائی ایلوپیتھک ادویات ٹیسٹس. اور سرجری کرنے سے سے ہی ممکن ہے۔
ہومیو پیتھی کا آغاز اٹھارہویں صدی کے اواخر میں جرمنی سے ہوا تھا۔ اس کی بنیاد اس نظریے پر ہے کہ انسانی جسم اپنا علاج خود کر سکتا ہے۔ ہومیو پیتھ جڑی بوٹیوں اور معدنیات وغیرہ سے دوائیں بناتے ہیں اور یہ دوائیں انتہائ چھوٹی طاقتوں میں دینے انسانی جسم سے بیماری ختم کرنے کی طاقت رکھتی ہیں۔
صرف پاکستان ،بنگلہ دیش ،چین اور بھارت جیسے ترقی پذیر ملکوں میں ہی بے شمار لوگ اس کم خرچ علاج کو ترجیح دیتے ۔فرانس جیسے امیر ملک کی 60 فیصد آبادی بھی ہومیوپیتھک دوائیں استعمال کرتی ہے۔
برطانیہ کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ حکومت کی جانب سے ایلو پیتھک علاج و معالجے کی مفت سہولت ہونے کے باوجود بہت سے لوگ پرائیوٹ ہومیو پیتھک علاج کروانا پسند کرتے ہیں جبکہ برطانیہ کا قومی ادارہ برائے صحت ’این ایچ ایس‘ کے کچھ ہسپتال اور جنرل فزیشن مریضوں کو ہومیو پیتھک دواؤں سے علاج کروانے کی بھی پیشکش کرتے ہیں۔
قارئین میں اٹھارہ برس سے اس طریقہ ء علاج کے ذریعے ہزاروں مریضوں کو صحتیاب کر چکا ہوں۔معدہ ،جگر گردہ جلد. بچوں میں پیٹ کے کیڑوں ریت مٹی کھانے کے رجہان. جسمانی دردوں وغیرہ کے مریضوں کیلئے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔میں نے قائد اعظم یونیورسٹی سے ایم پی اے کیا۔ایک ھو میو پیتھ سے الرجی کی دوائی لی تو آفاقہ ہوا۔میں بہت سی ایلوپیتھک دوائیاں آزما چکا تھا۔میری دلچسپی بڑھی تو ڈاکٹر جاوید اقبال قریشی کے ساتھ ملکر 1999 میں فری کیمپ کھولا ۔. مزید شوق بڑھا تو میں نے باقاعدہ ہومیوپیتھی میں داخلہ لے لیا۔ ڈی ایچ ایم ایس کرنے کے بعد متبادل ادویہ میں ایم ڈی کیا۔ اس کے بعد پی ایچ ڈی کی۔کامن ویلتھ انسٹیٹیوٹ نے فیلو شپ دی ۔. میں جوں جوں اس فیلڈ میں آگے بڑھتا گیا میرے لیے اس طریقہ کی اہمیت بڑھتی گئی۔اپنے تجربات سے سمجھتا ہوں کہ ہومیو پیتھک علاج کی یہ کامیابی ہے کہ لوگ انگلش دواؤں سے فائدہ نہ ہو نےکے بعد مجھ سے رجوع کرتے ہیں کیونکہ اس علاج کا معجزاتی اثر تو ہوتا ہے لیکن بہت کم سائیڈ افیکٹ ہوتے ہیں۔
عام طور پر لوگوں میں ہومیو پیتھک علاج کے بارے میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں کہ آیا یہ علاج اثر بھی کرے گا کہ نہیں؟ بہت سے لوگوں کی رائے میں دوائیں بہت سست روی سے اثر انداز ہوتی ہیں جس کی وجہ سے اکثر لوگ علاج ادھورا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یا پھر اکثر کے نزدیک ہومیو پتھک علاج کروانے والے افراد وہ ہوتے ہیں جو ایلوپیتھک علاج سے مایوس ہو کر اس طرف مائل ہوتے ہیں۔لیکن یہ تصور غلط ہیں۔ جہاں تک سُست ہونے کا تعلق ہے تو ایلو پیتھی علاج میں بھی ہائی بلد پریشر اور ذیابیطس کے مریض ساری زندگی دوائیں کھاتے ہیں جو کہ ان کے مرض کا علاج نہیں ہوتیں۔ جبکہ ہومیو پیتھ کے پاس ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس کے لیے دوا موجود ہے جو مرض کو جڑ سےاکھاڑ کر پھینک سکتی ہے۔ برص۔ ٹانسلز پراسٹیٹ. یورک ایسڈ. پتھریاں. بواسیر کو أپریشن کے بغیر شفا دلوانے کی صلاحیت ھومیو طریقہ علاج میں موجود ہے۔ لیکن جو لوگ محض وقت گزاری کیلئے علاج کرواتے ہیں, ایسے لوگوں کو کسی قسم کا علاج مطمئن نہیں کر سکتا کیونکہ علاج میں افاقہ اسی صورت میں ہوتا ہے جب علاج پر اعتقاد کیا جائے اور دوائیں پابندی سے استعمال کی جائیں ۔
شرط صرف ایک اچھے تجربہ کار ڈاکٹر کی ہے جو مرض کی صحیح تشخیص کرے کیونکہ ہومیو پیتھک علاج میں مرض کی اصل وجہ تک پہنچنے کے لیے مریض سے اس کے دن رات کے معمولات معلوم کیے جاتے ہیں اور مرض کی وجہ کا علاج کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک سر درد کا مریض کسی ایلوپیتھک ڈاکٹر سے علاج کرواتا ہے تو اسے پین کلر دوا دی جاتی ہے جو علاج نہیں ہے لیکن ہومیو پیتھی میں سر درد کے مریض سے پوچھا جاتا ہے کہ اسے یہ درد دن کے کون سے پہر میں ہوتا ہے، درد ٹھنڈ میں بڑھتا ہے یا گرمی سے اس کی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔
برس ہا برس فری کیمپ کرنے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ مریضوں کی زیادہ تر تعداد خواتین کی ہے جو عام طور پر گھٹنے کے درد یا جلد کے مسائل لے کر آتی ہیں۔ جلد کےمسائل کے لیے ھومیو دوائیں آزمودہ ہیں۔ ایگزیما کی بیماری بچوں میں بہت زیادہ ہے۔ اس کا ہومیو پیتھک میں شرطیہ علاج موجود ہے۔ اسی طرح بچوں کی بھوک بڑھنے، یرقان اور موٹاپے۔ کیڑوں۔ ریت مٹی کھانے۔ گردوں کو فیلیور سے بچانے ۔ ہیپاٹائیٹس اور دردوں کے لیے بہت ہی اچھی ادویات موجود ہیں۔
خدا کا شکر ہے کہ ہومیو پیتھک علاج کو پسند کرنے والے پڑھے لکھے لوگوں کی اب ایک بڑی تعداد موجود ہے جو اس علاج پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر لوگوں کو انتخاب کا حق دیں تو بڑی تعداد میں لوگ ہومیوپیتھی علاج کی جانب مائل نظر آئیں گے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اتائیوں کا خاتمہ کرے، اس سستے طریقہ ء علاج کا تحفظ کرے۔ایلوپیتھی ادویہ ساز کمپنیوں اور کمیشن مافیا کے کاروباری تعصب سے بچائے اور سب سے ںڑھ کر ھومیو ادویہ ساز مقامی صنعت کو سہولیات فراہم کرے تاکہ غریب لوگ اس طریقہ ء علاج کے فوائد سے بہرا مند ہوسکیں۔
میرا دعوی ہے کہ اگر حکومت سایہ فراہم کرے تو میری ٹیم ملک بھر میں مفت ھومیو ڈسپینسریز کا جال بچھا سکتی ہے۔