Oct
09
|
روشنی کا سفر
Uncategorized
Add comments
|
سامنے سکرین پر بچے نمودار ہوئے۔صحت مند ہونے کے بعد اٹھکیلیاں کر رہے تھے، سرجری سے قبل ان کی حالت دکھائی گئی۔ایک آنکھ روشن تھی جبکہ دوسری آنکھ میں رسولیاں ابھر کر باہر آرہی تھیں۔ان پھول جیسے بچوں کو زیادہ دیر دیکھتے رہنا انتہائی تکلیف دہ عمل تھا۔حوصلہ ہے ڈاکٹروں کا جو نہ صرف ان ابلتی آنکھوں کا آپریشن کرتے ہیں بلکہ ان بچوں کیساتھ والدین کی طرح پیار بھی کرتے ہیں۔ ویڈیو میں ماں باپ اپنی اپنی دکھ بھری کہانیاں بیان کر رہے تھے۔پسماندہ اور دور دراز علاقوں کے لوگ جو اپنے جگر گوشے کو لئے مارے مارے پھرتے رہے۔پھر کسی نے الشفاء آئی ہسپتال کا پتا بتا دیا اور ان کے اندر امید اور امنگ جاگ اٹھی۔بچے کی آنکھ اور زندگی دونوں بچ گئے۔ویڈیو میں کامیاب سرجری کے بعد بچوں کو تھینک یو الشفاء” کا نعرہ لگاتے سنا۔
ویڈیو ختم ہوئی اور آڈیٹوریم کی روشنیاں بحال ہوئیں۔میں نے شرکاء کے چہروں پر افسردگی اور خوشی کے ملے جلے تاثرات دیکھے۔
آنکھوں کے سرطان سے صحت مند ہونے والے بچے خوش نصیب کہ انہیں چیک اپ اور سرجری کی مفت سہولت ملی لیکن کیموتھراپی اور ریڈی ایشن وغیرہ دیگر ہسپتالوں سے پیسے دے کر کرانا پڑے۔شائد گھر کی ہر خوشی بچے پر قربان کر دی ہو۔سرجری کے بعد بھی مسلسل چیک اپ کیلئے مہنگے ترین ٹیسٹ کراتے رہنا ہونگے۔اتنے پیسے غریب والدین کہاں سے لاتے ہونگے ؟
میں گزشتہ بائیس برس سے متبادل ادویہ اور ہومیوپیتھی طریقہ علاج کے ذریعے اب تک ہزاروں لوگوں کا مفت علاج کر چکا ہوں۔اپنے گھر کا ایک پورشن میں نے فری کیمپ کیلئے وقف کر رکھا ہے۔ کلینک بھی یہیں کرتا ہوں۔مجھے علم ہے کہ کتنے سفید پوش لوگ بھی ہومیوپیتھی کی قدرے سستی ادویات کے پیسے بھی نہیں دے سکتے۔ کینسر کے ٹیسٹوں پر تو بھاری رقم لگتی ہے۔
الشفاء ٹرسٹ کی بڑی ہمت ہے کہ یہاں گزشتہ تیس برس سے 70فیصد سے زائد مریضوں کا مفت علاج ہوتا ہے اور فری اور آن پیمنٹ مریضوں کے علاج میں کوئی فرق روا نہیں رکھا جاتا۔
میں سوچ رہا تھا کہ اگر آنکھوں کے سرطان والے بچوں کی فری سرجری کیساتھ ایم آر آئی،کیمو اور ریڈی ایشن وغیرہ کی مفت سہولت بھی الشفاء ٹرسٹ ہی مہیا کردے تو کتنی آنکھیں اور زندگیاں بچ جائیں گی۔
بچپن میں آئی کینسر کی آگاہی کے حوالے سے الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال راولپنڈی میں نئے تعمیر شدہ ایشیا کے سب سے بڑے چلڈرن آئی ہسپتال کے وسیع اور جدید طرز کے آڈیٹوریم میں 29ستمبر کو ایک سیمینار منعقد کیا گیا۔سیمینار میں الشفاء کے ڈاکٹروں،اسٹاف ممبران اور سٹوڈنٹس کے علاوہ پروفیشنلز، پالیسی سازوں، پبلک ہیلتھ ماہرین، وزارت صحت اور عالمی ادارہ صحت کے عہدیداروں نے بھی شرکت کی۔
مجھے بھی شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹو اور انتہائی انسان دوست شخصیت بریگیڈیئر رضوان اصغر سے پرانی یاد اللہ ہے۔میرے گھر واقع گلستان کالونی میں ایک بار فری آئی کیمپ بھی لگ چکا ہے اور ہر تین ماہ بعد بڑا آئی کیمپ لگانے کا پروگرام طے پا چکا ہے۔بریگیڈئیر صاحب میرے ساتھ والی نشست پر تشریف فرما تھے اور دھیمی آواز میں سیمینار کے مقاصد بھی بتا رہے تھے۔
“کاش کہ پاکستان کے گھر گھر یہ پیغام پہنچ جائے کہ آنکھ میں کینسر کی علاماتِ کیا ہوتی ہیں اور یہ بھی آگہی پھیل جائے کہ اس کینسر کا علاج الشفاء آئی ہسپتال میں ہورہا ہے اور کاش کہ غریب مریضوں کو کینسر کے ٹیسٹوں کیلئے دیگر جگہوں پر دھکے نہ کھانے پڑیں۔”
میں یہی سوچ رہا تھا کہ ٹرسٹ کے صدر میجر جنرل رحمت خان روسٹم پر تشریف لائے۔جنرل صاحب ملنسار،شفیق اور مخیر شخص ہیں۔ان کا انداز مقرر والا نہیں۔لیکن وہ ٹھہرے ہوئے انداز میں بات کرتے اور مخاطب کے دل پر دستک دیتے ہیں۔کہنے لگے،
“دیکھئے آپ لوگ اس لحاظ سے خاص مہمان ہیں کہ اس جدید طرز پر بنائے گئے آڈیٹوریم میں بیٹھنے والے آپ ہی پہلے سامعین ہیں۔بچوں میں آئی کینسر کی تشخیص سے لیکر علاج تک پیچیدہ اور حساس معاملہ ہے۔بعض مریضوں اور لواحقین کی حالت دیکھی نہیں جاسکتی۔یہاں ہر روز ایسی کہانیاں ہیں کہ مفت علاج تو ہوگیا لیکن واپس جانے کا کرایہ نہیں ہوتا۔اللہ جزا دے ان لوگوں کو جو عطیات دیتے ہیں اور ہم ضرورت مند مریضوں کی خدمت کرنے میں مصروف ہیں۔
کینسر زدہ بچوں کے حوالے سے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ مستحق مریضوں کو اب ایک ہی چھت کے نیچے ہر سہولت ملے گی۔یہیں کیمو تھراپی ہو گی،ریڈی ایشن کا سسٹم ہو گا،سائیکو ٹریٹمنٹ ہوگا۔اس کیلئے بورڈ نے ایک مکمل آئی کینسر سنٹر قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
`ڈاکٹر طیب افغانی کی نگرانی میں یہ سنٹر کام کریگا ۔جب تک ہم ضروری مشینری خرید کر انسٹال نہیں کرتے، کیمو تھراپی وغیرہ کی سہولت باہر سے حاصل کریں گے۔غریب مریضوں کے اخراجات ٹرسٹ اٹھائے گا۔ٹیسٹ اور تھراپی کیلئے کہاں جانا ہے یہ بھی الشفاء بندوبست کریگا۔کسی کو ناامید واپس نہیں بھیجیں گے۔فی الحال کیموتھراپی کے اخراجات میں اور میرے ایک دوست برداشت کریں گے۔پہلے ہمارے پاس آئی کینسر کلینک ہے اب ایک باقاعدہ سنٹر بن جائے گا اور یہ پاکستان میں آئی کینسر کے علاج کا پہلا مکمل ادارہ ہوگا”
ہال تالیوں سے گونج اٹھا ،میرے دل سے الشفاء،اس کے سربراہ اور ٹیم کے لیے دعا نکلی۔ تھینک یو الشفاء !