Nov 08

 

خدا خدا کر کے ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن جاری ہوا اور 20 نومبر کو یہ عمل اب تکمیل کو پہنچ جائے گا۔اس غیر ضروری تاخیر کی ضرورت ہی نہیں تھی۔عسکری اور سول حلقے متفق ہیں کہ ہمیں کم از کم عسکری ڈسپلن کیساتھ چھیڑ چھاڑ نہیں کرنا چاہیے۔یہ کوئی پنجاب پولیس نہیں کہ اپنی من مانی سے جسے چاہیں ہٹا دیں اور جسے چاہیں لگا دیں۔یہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کا نازک معاملہ ہے۔اہم اور کلیدی تعیناتیوں کو طے شدہ میرٹ پر سرانجام دیا جاتا ہے۔یہی ڈسپلن کی خوبصورتی ہے۔ اسی لیے پاک فوج دنیا کی منظم ترین افواج میں شمار یوتی ہے ۔

یہاں آرمی چیف کیلئے جو نام بھجوائے جاتے ہیں وہ بھی سخت میرٹ پر کسے ہوئے ہوتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ سیاستدان آرمی چیف جیسے غیر متنازع منصب کو بھی اپنی سیاسی خواہشوں اور وقتی فائدوں کی بھینٹ چڑھاتے ہیں اور اکثر اوقات اپنے ہی لگائے یوئے سپہ سالار کو اپنا مخالف سمجھنے لگتے ہیں۔سیاستدان بھول جاتے ہیں کہ جرنیل بھی اسی دھرتی کے بیٹے ہیں ۔وہ بھی سچے پاکستانی ہیں اور بگڑتے ملکی معاملات کے حوالے سے ان کا بھی دل کڑھتا ہے۔فوج کو سیاست میں حصہ لینے کا کوئی حق نہیں لیکن پاکستانی ہونے کے ناتے پاکستانی امور کے بارے سوچنے،بات کرنے کا حق کوئی کسی پاکستانی سے چھین نہیں سکتا۔ یہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والا ایک نظریاتی ملک ہے۔اس کے ساتھ رشتہ ایمان کا رشتہ ہے۔
تدبیر کی غلطی اگر سیاستدان کر سکتا ہے تو عسکری قیادت بھی خطا سے مبرا نہیں۔لیکن جہاں تک اداراتی نظم و ضبط کا تعلق ہے وہ ہمیشہ برقرار رہتا ہے۔آرمی چیف ہی بہتر جانتا ہے کہ کس جرنیل کو کونسی ذمہ داری دینی ہے۔لیکن اگر آئی ایس آئی کے سربراہ کیلئے وزیراعظم نے انٹرویو کرنے ہیں تو پھر عسکری لوگ لامحالہ وزیراعظم ہاؤس کیطرف دیکھا کریں گے۔انہیں اداراتی ڈسپلن کا پابند ہونا خواہ مخواہ کا بوجھ محسوس ہونے لگے گا۔ایسی بے معنی سیاسی مداخلت ہمیں تباہی کیطرف لے جائے گی۔پرائم ایجینسی کسی ملک کی پہلی دفاعی لائن ہوتی ہے۔اس لائن کو کسی حوالے سے بھی اپنی وفاداریاں کسی پارٹی یا شخصیت سے وابستہ نہیں کرنی چاہیں۔پہلے ہی ایک سیاسی پارٹی اس حوالے سے ناخوشگوار رد عمل کا کھلے عام اظہار کر رہی ہے۔کیا وزیراعظم کے طرز عمل سے ہمارا یہ اہم ترین ادارہ سیاسی کشمکش کا مستقل شکار نہیں ہوجائے گا۔
آئی ایس آئی کے سربراہ کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن ہم سب نے پڑھا اور بطور پاکستانی اسے پڑھ کر میرا سر شرم سے جھکا ہوا ہے۔آخر طے شدہ اصولوں اور روشن روایات سے ہٹ کر اس تمام ایکسرسائز کا فائدہ کیا ہوا؟ تعیناتی کرنے کے بعد ایک ماہ تک چارج نہ لینے کا مقصد کیا تھا؟ ایک غیر یقینی کی کیفیت۔ ایسی کیفیت میں خدا نخواستہ کسی وقت جنگ شروع ہو جائے تو فیصلے کرنے میں کتنی الجھنیں حائل ہو سکتی ہیں۔میں نے کچھ عرصہ ایک عسکری ڈسپلن میں گزارا ہے۔میں وزیراعظم کے اس فیصلے سے عسکری حلقوں میں پیدا ہونے والی تشویش کو سمجھ سکتا ہوں۔سمری میں بتایا گیا ہے کہ تجویز کئے گئے جرنیلوں سے وزیراعظم نے انٹرویو بھی کئے ۔کیا اس سے وزیراعظم آفس کے طاقتور ہونے کا تاثر قائم ہوگیا ہے؟
ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ریاستی اداروں کو کمزور کر کے حکومتیں کمزور ہوتی ہیں،مضبوط کبھی نہیں ہوتیں۔الٹا حکومت اور فوج کے ایک صفحہ پر ہونے کا تاثر بھی ختم ہوگیا۔اگر غیر جانبدار ہو کر ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے حوالے سے وزیراعظم کے فیصلے کا جائزہ لیا جائے تو صرف ایک نتیجہ نکلتا ہے۔شخصی انا۔تکبر۔انانیت۔
اللہ پاک ہمیں اس بیماری سے بچائے۔یہ تباہی کا طرز عمل ہے۔قران نے تکبر کو تباہی کا راستہ قرار دیا ہے اسوہ ء رسول ہمیں انانیت پسندی اور کبر سے دور رہنے کی راہ دکھاتا ہے۔”میں میں” کی تکرار قومی معاملات میں زہر قاتل ثابت ہوتی ہے۔سرائیکی کی کہاوت ہے،
“زیر بن زبر نہ بن،کتھے پیش نہ پئے جاوی”
حکمران حدیث مبارکہ کو یاد رکھیں،
رسول اللہ(ص) نے فرمایا, “کوئی انسان جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے آگ میں داخل نہ ہو گا اور کوئی انسان جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر تکبر ہے جنت میں داخل نہ ہو گا “(صحیح مسلم)

written by DrMurtazaMughal@


Leave a Reply