Feb 10

صرف ساڑھے تین برس بیتے ہیں کہ سونامی کی لہریں دم توڑنے لگی ہیں،تبدیلی کی آندھیوں کا دم گھٹنے لگا ہے اور شفافیت کے چہرے پر بدعنوانی کے پسینے بہنے لگے ہیں۔
احتساب اور نہیں چھوڑوں گا کا نعرہ اب “الیکشن کمشن دوسری پارٹیوں کے فنڈز کی بھی تحقیق کرے تک محدود ہوگیا ہے”۔کرپشن کیخلاف جنگ کے تمام دعوے ناکامی کی دھول چاٹ کر اقتدار کی بھول بھلیوں میں گم ہوگئے ہیں۔اخلاقی بالاتری کے جس خود ساختہ مینار پر کھڑا ہوکر نئے پاکستان کا معمار اپنے سیاسی حریفوں کو للکارا کرتا تھا وہ مینار ہی زمیں بوس ہوگیا ہے۔غیر ملکی تحائف بیچ کھانے کے الزامات کی ابھی مؤثر تردید کا انتظار تھا کہ غیر ملکی فنڈنگ کا قلاوہ گلے میں جھولنے لگا۔اب یہ اداروں کا صوابدیدی اختیار ہے کہ وہ سسٹم کو بچانے کیلئے تحریک انصاف کو بچا لیں ورنہ عبرتناک سزا کیلئے قانون نے اپنا دامن وا کردیا ہے۔
جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے جس طرح عمران خان کی مبینہ ایمانداری کو بیچ چوراہے کے دھویا ہے اس کے بعد سچ سمجھ جانے کیلئے کسی بے بہا بصیرت کی گنجائش نہیں رہتی۔


خیبر پختونخوا کے بلدیاتی انتخابات میں عوام نے دراصل تبدیلی سے بیزاری کا اظہار کردیا ہے۔پنجاب میں اخباری اشتہارات کے ذریعے نئے منصوبوں کا پروپیگنڈا زوروں پر ہے لیکن زمینی حقائق اشتہاری مہمات کے برعکس دکھائی دیتے ہیں۔صحت کارڈ لوگوں کیلئے کسی بھی کشش سے خالی ہیں،مجبورا ہر شناختی کارڈ ہولڈر کو صحت کارڈ کا حقدار قرار دے دیا گیا ہے۔بلکہ یہاں تک کہا گیا ہے کہ صحت کارڈ بنوانے کی بھی ضرورت نہیں،جائیں شناختی کارڈ دکھائیں اور 10لاکھ روپے تک مفت علاج کروائیں۔پھر بھی لوگ حکمران جماعت کو ووٹ دینے کیلئے راضی نہیں ہیں۔ہزارہ کے اندر وفاقی وزیر دفاع کی اپنی پارٹی کے لوگوں سے ہی منہ ماری ہو گئی۔پنجاب تو پہلے ہی تحریک انصاف کو “عاق”کر چکا ہے۔مولانا فضل الرحمان کی واپسی گویا سیاست کے “ٹارزن” کی واپسی ہے۔حکومت کتنی بے بس ہے اس کا اندازہ اس بیان سے لگائیں کہ “مولانا فضل الرحمان کی پارٹی کا جیتنا،پاکستان کی بد قسمتی ہے”
عمران خان کے بقول انہوں نے بائیس برس جدوجہد کی تب انہیں اقتدار ملا ہے۔اپوزیشن کے بقول وہ الیکڈڈ نہیں سیلیکڈڈ ہیں۔اقتدار میں آنے کے راستے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اقتدار میں آنے کے ساتھ ہی کوئی رہنما غیر مقبولیت کی ڈھلوان پر لڑھکنا شروع کردے یہ حادثہ صرف تحریک انصاف کے ساتھ پیش آرہا ہے۔عمران خان ماہر مہم جو ہیں،نوجوانوں کے اندر مقبول رہے ہیں،اوورسیز پاکستانیوں نے دل کھول کر چندے دئے،خان صاحب عدلیہ اور آرمی کے پسندیدہ وزیراعظم کہے جاتے ہیں۔پھر کیا وجہ ہے کہ وہ ملکی امور کو سمجھنے سے قاصر رہے ہیں۔عوامی نبض کو جانچ نہیں پائے۔ان کی ریٹنگ ہر روز ریت کی طرح سرکتی جارہی ہے۔
2018ءکے انتخابات ہونے والے تھے،تحریک انصاف کا جنون عروج پر تھا۔خان صاحب کیساتھ جڑواں شہروں کے سینئر کالم نگاروں کی نشست کا اہتمام کیا گیا۔مجھے بھی خصوصی طور پر بلایا گیا۔بات چیت ختم ہوئی تو میں نے خان صاحب سے کہا،
آپ کے خیالات بہت اعلی ہیں لیکن لوگوں کو شکوہ ہے کہ آپ بہت متکبر ہیں۔کیا آپ واقعی ایسے ہیں؟
خان صاحب زیر لب مسکرائے،
پھر سنجیدہ لہجے میں وضاحت کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔خان صاحب وزیراعظم بن گئے۔میں نے ان کی تقریریں سننا شروع کردیں۔وقت کیساتھ ساتھ ان کی تقریریں “میں میں”کے تکرار سے بوجھل ہونے لگیں۔پھر انہوں نے عقل کل ہونے کا اظہار شروع کردیا۔تاریخ،مذہب،اکنامکس،خارجی امور غرض زندگی کے ہر شعبے پر بطور وزیراعظم پاکستان ان کی فیصلہ کن رائے آنا شروع ہوگئی۔خوشامدیوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔”خان صاحب کا ویثرن”ایمان کا حصہ بنتا گیا۔وزیر تعلیم جوکہ تعلیمی اور شعوری ،ہر لحاظ سے عمران خان ہر سبقت رکھتا ہے وہ بھی خان صاحب کے ویثرن کا مداح بن گیا۔خاں صاحب جو جوانی سے ہی نرگسیت کا شکار تھے وہ کاسہ لیسوں اور مالشیوں کے ہجوم میں آسودگی محسوس کرنے لگے۔سب اچھا کی رپورٹ دینے والے قریب اور اختلاف کرنے والے دور ہوتے گئے۔
ساڑھے تین سال ہوگئے۔خان صاحب نے اپنے اندر کے کبر اور غرور کو خوب کھلایا پلایا ہے۔وہ مان ہی نہیں سکتے کہ ملک اور اپنی پارٹی کو تباہ کرنے میں ان کی کوئی غلطی نہیں۔وہ اپنے کہے ہوئے ہر لفظ کو “فرمان” کے طور پر تسلیم کرنے کے خواہش مند ہیں۔ سچ یہ ہے کہ تبدیلی کو تکبر نے کھا لیا ہے۔تکبر کی انتہا دیکھئے کہ وہ خود کو برانڈ قرار دے رہے ہیں۔ان کے وزیر کہہ رہے ہیں کہ دنیا پاکستان کو عمران خان کے پاکستان کے طور پر جانتی ہے۔حالانکہ عمران خان ہوں یا کوئی اور سیاستدان،سب کی پہچان پاکستان ہے۔لیکن تکبر انسان کو ہر حقیقت سے ماوراء کردیثا ہے۔خان صاحب بھی حقیقت حال سے دور ہوتے جارہے ہیں۔بدنامی کی ڈھلوان ہے اور وہ پاتال کیطرف لڑھکتے جارہے ہیں۔انجام الامان،الحفیظ !

written by DrMurtazaMughal@


Leave a Reply