Jan 11

وہ عورت کسقدر خوش تھی۔خیبر پختونخوا کے کسی دور دراز کے گاؤں سے آئی تھی۔اپنے معصوم بچے کی بینائی بچانے کیلئے یہاں آگئی تھی۔والد بھی ساتھ تھا۔اس نے راقم کو بتایا
” بچے کی عمر پانچ برس ہے۔سب ڈاکٹروں کو چیک کرایا لیکن نظر روز بروز کمزور ہوتی جارہی تھی۔جب چاروں طرف سے مایوس ہوگئے تو ہمارے بھتیجے نے پھر ہمیں پشاور شہر میں کسی اور مشہور آئی سپیشلسٹ کے پاس بھیجا۔اس ڈاکٹر نے آنکھ دیکھ کر معذوری ظاہر کردی۔
ڈاکٹر نے بتایا کہ بچے کی آنکھ میں کینسر ہے اور آنکھوں کے کینسر کا علاج پاکستان میں نہیں ہوتا۔یہ سن کر میری بیوی رونے لگی۔ڈاکٹر نے ایک مہربانی کی اور ہمیں مشورہ دیا کہ آپ راولپنڈی الشفاء آئی ہسپتال چلے جائیں وہاں پچیدہ امراض کا علاج ہوتا ہے،شائد کینسر کا علاج بھی ہوتا ہو۔ہماری خوش قسمتی ہے کہ ہم یہاں آگئے۔یہاں آنکھوں کے کینسر کا الگ شعبہ ہے اور ہر طرح کی سہولت بھی موجود ہے”
عام کینسرکا علاج بھی انتہائی مہنگا اور تکلیف دہ ہوتا ہے۔کسی طرح کے کینسر کیلئے کیموتھراپی چاہیے جو غریب آدمی کیلئے ایک ممکن ہی نہیں۔اس کے علاہ بیشمار مہنگے ٹیسٹ ہیں۔پھر نازک قسم کے آپریشن ہوتے ہیں جو صرف آنکھوں کے ماہر ڈاکٹر ہی کرسکتے ہیں۔جب غریب مریض کو کہا جاتا ہے کہ آپ باہر سے کیموتھراپی کروائیں تو وہ بیچارہ بے بس ہو جاتا ہے۔انتہائی ضروری فالو اپ چیک اپ ہوتے ہیں وہ بھی انتہائی مشکل ہوجاتے ہیں۔جو والدین صاحب استطاعت ہوتے ہیں انہیں بھی مختلف ٹیسٹ مختلف جگہوں سے کرانے میں بڑی دشواری ہوتی ہے۔
الشفاء ٹرسٹ کے صدر جنرل(ریٹائرڈ) رحمت خان نے فیصلہ کیا کہ کینسر سنٹر بھی قائم کیا جائے۔ایشیا کے سب سے بڑے نو تعمیر شدہ چلڈرن آئی ہسپتال کے اندر ہی چلڈرن آئی کینسر سنٹر قائم کردیا۔اس کیلئے بہت بجٹ درکار تھا۔خصوصا کیموتھراپی بے حد مہنگا علاج ہے۔لیکن الشفاء ٹرسٹ کے ڈونرز نے بھر پور ساتھ دیا۔اب اس سنٹر میں 80فیصد مریض بچوں کا مفت علاج ہورہا ہے۔اور مفت اور فیس ادا کرنیوالوں کو ایک جیسی سہولیات مل رہی ہیں۔اب آئی کینسر کے کسی مریض کو علاج کیلئے نہ اندرون ملک خوار ہونے کی ضرورت ہے نہ ہی بیرون ملک قیمتی زرمبادلہ لٹانے کی مجبوری ۔ایک چھت کے نیچے کیموتھراپی سمیت جدید ترین طریقہ علاج میسر ہے۔
کینسر کے علاوہ بھی کسی وجہ سے ڈوبتی بصارتوں کی بحالی کا ہر علاج اور ماہر ترین ڈاکٹر الشفاء آئی ہسپتال میں موجود ہیں۔
راولپنڈی میں پہلے الشفاء آئی ہسپتال کی بنیاد 1985ء میں رکھی گئی۔ پھرکوہاٹ،سکھر،
مظفرآباد،چکوال میں ہسپتال بنے۔اب کوئٹہ کا رخ ہے۔اس کے علاوہ چلڈرن آئی ہسپتال،آوٹ ریچ پروگرام،آئی بنک اور ریسرچ سنٹر موجود ہے۔آپٹو میٹری کا بڑا ادارہ ہے اور پبلک ہیلتھ کی ڈگری بھی یہاں سے ملتی ہے۔
الشفاء ٹرسٹ آئی ہسپتال راولپنڈی میرے گھر کے بالکل قریب ہے۔میں اس ٹرسٹ کے تعاون سے اپنے ہومیوپیتھک کیمپ پر سال میں ایک دوبار فری آئی کیمپ بھی لگواتا ہوں۔حیرت ہوتی ہے کہ بالکل قریب کی بستیوں سے آنکھوں کے اتنے مریض آتے ہیں۔یا تو انہیں ہسپتال کے بارے آگاہی نہیں یاوہ اپنی بصارت سے غافل رہتے ہیں۔عورتوں اور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے۔ہمارے معاشرے میں شائد صحت ابھی تک پہلی ترجیح نہیں بن سکی۔دوسرا معاملہ یہ کہ پرائیویٹ ہسپتال میں آنکھوں کا چیک اپ اور آپریشن بہت مہنگا ہے۔الشفا ٹرسٹ ہر سال لگ بھگ دس لاکھ مریضوں کا علاج کرتا ہے جس میں سے 80فیصد بالکل مفت ہوتے ہیں۔
ہمارے لوگوں کو کوئی موٹیویٹ بھی نہیں کرتا۔ہم طرح کے مشورے دیتے ہیں لیکن معلومات منتقل نہیں کرتے۔میرا ایک کام پبلک موٹیویشن بھی ہے۔قرآنی آیات اور افکار اقبال کی روشنی میں مختلف تعلیمی اداروں میں موٹیویشنل لیکچر دیتا ہوں اور اس کام کا کوئی،کسی شکل میں بھی معاوضہ نہیں لیتا۔یہ توفیق اللہ کی دی ہوئی ہے۔میری یہ پہچان الشفاء ٹرسٹ میں بھی پہنچی۔مجھے گزشتہ برس ستمبر میں صدر الشفاء ٹرسٹ جنرل رحمت صاحب نے اپنے آفس مدعو کرکے “فرینڈ آف الشفاء”کا سرٹیفکیٹ دیا۔ ایگزیکٹو ڈائریکٹر بریگیڈیئر رضوان اصغر نے “فرینڈ” ہونے کے تقاضے بتائے۔ایک ہی تقاضا کہ عام لوگوں کو اندھے پن سے بچانے اور بصارت بحال کرنے کیلئے آگاہی پھیلائی جائے۔تحریک پیدا کی جائے۔صحت عامہ چونکہ میرا مشن ہے اس لئے محترم قارئین آپ یا آپ کا کوئی پیارا،کوئی قریبی اپنی آنکھوں میں کسی قسم کی تکلیف محسوس کرے تو اسے امراض چشم کے کسی اچھے ماہر سے چیک اپ پر آمادہ کریں۔اگر کوئی پیچیدہ مرض ہے تو فوری طور پر الشفاء ہسپتال کا رخ کریں۔آپ فیس ادا نہیں کرسکتے تو کسی زکوات سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ الشفاء آئی ہسپتال میں آپکی عزت نفس مجروح نہیں ہوگی۔ صدر جنرل رحمت اپنے پیش رو جنرل حامد مرحوم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ٹرسٹ کے بانی جنرل جہانداد جنت نصیب کے اس مشن کو لیکر چل رہے ہیں کہ”جدید ترین طریقوں اور ماہر ترین ڈاکٹروں کے ذریعے ہر کسی کیلیے بینائی کے علاج کی مفت سہولت “
روشنی کے ان سفیرو کا شکریہ،ان خالص جذبوں کو سلام !

written by DrMurtazaMughal@


Leave a Reply