Jan 19

پاکستانی سیاست صرف پاور پالیٹکس بن چکی ہے۔عوامی خدمت اور سیاسی رہنماؤں کا ذاتی کردار اب فتح و شکست کا کوئی معیار نہیں رہا۔یہی سبب ہے کہ 75برس گزرنے کے بعد اور متعدد بار الیکشن منعقد ہونے کے باوجود مملکت پاکستان قحط اور قحط الرجال میں پوری طرح جکڑا ہوئی ہے۔قرض دینے والے مذید قرض دینے سے ہچکچا رہے ہیں۔آٹے کے حصول کیلئے عوام قطاروں میں لگے ہیں۔بے یقینی اس قدر ہے کہ ہر گھر باقی اخراجات روک کر آٹا جمع کررہا ہے کہ شائد پھر ملے نہ ملے۔ملک کی معاشی صورتحال ڈیفالٹ کے قریب ہے اور اخلاقی صورتحال کا اندازہ سوشل میڈیا پر سیاسی پوسٹوں سے لگایا جا سکتا ہے۔

اب پھر انتخابات کا شور شرابا ہے۔مال لگاؤ اور سیٹ جیتو,پھر سیٹ جیت کر اور مال بناؤ۔سیاست بہت بڑی تجارت بن گئی ہے۔سیاستدان ہی نہیں کارکن اور سپورٹرز بھی پیشہ ور ہوچکے ہیں۔حمائت کرنے،دفتر کھولنے،ووٹ ڈلوانے کا صلہ پہلے سے طے کرلیتے ہیں۔کیش کے علاوہ جیتنے کے بعد نوکریاں،ٹھیکے اور مراعات کی پیکج ڈیل ہوتی ہے۔جسطرح ہاؤسنگ سوسائٹیوں کیلئے لینڈ پرووائیڈر ہوتے ہیں اسی طرح سیاسی رہنماؤں کیلئے ووٹ پرووائیڈر بھی پیدا ہوچکے ہیں۔ایک انتہائی منافع بخش کاروبار  ہے۔جس میں میڈیا بھی بڑا حصہ دار ہے۔

خدمت والی سیاست ناپید ہو چکی ہے۔کراچی میں جماعت اسلامی نے اسے کسی حد تک پھر سے بیدار کیا ہے۔دیکھنا ہو گا کہ وہ کسطرح شہریوں کی خدمت کا آئندہ کا سفر پورا کرتی ہے۔

بہت سے لوگ کاروباری سیاست سے دلںرداسشتہ ہو کر نہ صرف سیاست بلکہ ملکی امور سے ہی لاتعلق ہو چکے ہیں۔ظاہر ہے عوام کی اکثریت کی لاتعلقی کا فائیدہ بھی سیاست اور اقتدار کے بیوپاریوں کو ہی ہورہا ہے۔

کیا ایسا ہونے دیا جائے؟ کیا اس ملک کے لئے سوچنے والے یونہی کڑھتے رہیں۔کیا پھر کسی تبدیلی کے نام پر بیوقوف بنتے رہیں؟

تعمیری ذہنوں کو تخریبی ذہنوں کے مقابلے پر بیدار ہونا ہی ہوتا ہے۔یہ فطرت کا اصول ہے،یہ قرآنی حکم ہے۔خیر اور شر کی جنگ میں خیر کی قوتوں کو منظم ہونے اور متحد ہونے کا حکم ہے۔پاکستان میں بھی ایسے افراد کی کمی نہیں جو عوام کی خدمت کے ذریعے اپنے رب کو راضی کرتے اور معاشرے کیلئے نفع مند ہوتے ہیں۔بس ان کی کوئی اجتماعی آواز نہیں ہوتی،ان کیلئے کوئی متحرک سیاسی و سماجی پلیٹ فارم نہیں ہوتا۔

سوچتے بہت سے لوگ ہیں لیکن ہمت کوئی نہیں کرتا۔

ایک  ہمت اب ڈاکٹر محمد حنیف مغل نے کی ہے۔اسلام آباد کے آئی ایٹ مرکز میں ہومیوپیتھک کلینک کرتے ہیں۔ان کے رابطوں کا دائرہ وسیع ہے۔ڈاکٹر صاحب نے خدمت خلق کے ذاتی طور پر کئی طریقے اختیار کر رکھے ہیں۔لیکن ان کا یہ کام ذاتی سطح کا تھا۔انہوں نے اس کام کو ایک تحریک کی شکل دینے کا سوچا اور بڑی تگ و دو کے بعد ایک سیاسی پارٹی رجسٹر کرا لی ہے۔تحریک شاد باد پاکستان کو چاقو نشان الاٹ ہوچکا ہے۔اب اس پارٹی کی سرگرمیوں کا طریقہ کار طے کیا جارہا ہے۔ڈاکٹر حنیف صاحب کا خیال ہے کہ اس تحریک میں پیشہ ور سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو شامل نہیں کرنا۔اس میں وہی لوگ اہم عہدوں پر لئے جائیں گے جنہوں نے عملی طور پر خدمت خلق کے کام کئے ہوں اور خدمت کا بنیادی جذبہ رکھتے ہوں۔پھر ان لوگوں کو دعوت دی جائے جو ہنر مند ہوں اور بے ہنر نوجوانوں کو اس قابل بنا سکتے ہوں کہ وہ روزگار کما سکیں۔ڈاکٹر صاحب کے نزدیک پاکستانیوں کو بنیادی تعلیم دینا بہت ضروری ہے۔ساڑھے تین کروڑ بچے سکولوں اور مدرسوں سے باہر ہیں اور آبادی کیساتھ ساتھ یہ تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ایسے بے سکول بچوں کیلئے ان کے کام کرنے والی جگہوں پر پرائمری ایجوکیشن کا بندوست کیا جائے۔اسی طرح وہ صحت کے معاملے کو بھی میری سوچ کے عین مطابق حل کرنا چاہتے ہیں۔سستی اور مؤثر دوائی۔اس کے لئے وہ ملک بھر میں مسلسل اور متواتر ہومیوپیتھک کے فری کیمپس کا انعقاد کرنا چاہتے ہیں۔

چونکہ میرا اپنا مشن بھی یہی ہے اس لئے ایک مشترکہ دوست کے ذریعے ڈاکٹر صاحب سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں۔انہوں نے مجھے تحریک شاد باد کا مرکزی عہدہ لینے کی پیشکش کی لیکن میں نے اپنے غیر سیاسی مزاج کے سبب شکریہ کے ساتھ پیشکش واپس کردی البتہ تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اپنی خدمات پیش کرتے ہوئے چیف ایڈوائزر کی ذمہ داری اٹھا لی ہے۔امید ہے کہ یہ پلیٹ فارم خدمت خلق کی تعمیری قوتوں کو اکٹھا کرنے میں مدد گار ثابت ہوگا۔عام آدمی کو ہنر مند بنانے کا منصوبہ کامیاب ہوگا،صحت مند معاشرہ تعمیر ہوگا اور جہالت سے نجات ملے گی۔

مجھے یقین ہے کہ اس پلیٹ فارم سے جو لوگ خدمت خلق میں حصہ لیں گے، لاتعلق ووٹرز ان اشخاص کو مذید طاقتور بنانے کیلئے ایوانوں میں بھی پہنچائیں گے۔ تحریک کے نشان چاقو سے کاروباری سیاست کی زنجیریں کٹ جائیں گی۔ ہمارا پیارا پاکستان واقعی کشور حسین  شاد باد بن سکے گا۔

ہر گھر آباد،خوشحال پاکستان

تحریک شاد باد،چاقو کا نشان

written by DrMurtazaMughal@


Leave a Reply