Feb
17
|
Click here to View Printed Statment
پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ میں اہل اقتدار نے اس ملک اور اس کے عوام کے ساتھ صرف تماشے ہی کئے ہیں اور تماشے دیکھ دیکھ کر عوام ا ب خود بھی تماشہ بن چکے ہیں۔تماشبینی کے اس شوق میں ہی اچھے خاصے سمجھ دار لوگ ٹی وی چینلز کے سامنے دوزانوں ہو کر بیٹھے رہتے ہیں اور بات کا بتنگڑ بننے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برساتے ہیں۔ ایک بڑے میڈیا گروپ نے اپنے مالک کے حکم پر ایسے ایسے اینکرز چھوڑ رکھے ہیں جو جادوگروں کی طرح اپنے سامعین اور ناظرین کو مبہوت کئے رکھتے ہیں۔ دماغوں‘دلوں اور سانسوں تک قبضہ کر لینے والے ہمارے ان فکری ناخداﺅں نے پوری قوم کے اعصاب پر پنجے گاڑھ کر کروڑوں لوگوں کو عملاً کٹھ پتلیاں بنا دیا ہے۔سادہ لوح‘ بھولے بھالے لوگ مخصوص میڈیا گروپ کی انگلیوں پر ناچتے ہیں۔پتلوں کو آگ لگاتے ہیں ‘”گوگو“ کے نعرے اَلاپتے ہیں۔سینے پھاڑپھاڑ کر ”چیف تیرے جانثار….“ کا ورد کرتے ہیں اور پھولی ہوئی رگوں کے ساتھ ”انقلاب انقلاب….“ کی دہائی دیتے ہیں۔
ایشوز کو نان ایشوز اور رائی کے پہاڑ بنانے کے فن میں تاک یہ ماہر دِماغ ساز گروہ عوام کو ان کی بنیادی ضرورتوں کی طرف متوجہ ہی نہیں ہونے دیتے۔ اگر کوئی جج ایک کورٹ سے نکل کر اسی ملک کے کسی دوسرے کورٹ میں بیٹھ جائے یا نہ بیٹھ سکے تو ان دونوں عوامل سے چینی کی نایابی پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ گیس بند ہے‘ججوںکی ترتیب بدل جانے سے کون سی تبدیلی رونما ہوگی؟۔چوراہوں میں روزگار کی تلاش میں کدالیں اٹھائے مزدوروں کی کونسی فیکٹریاں چلنے لگ پڑیں گی۔ اگرموجودہ ”کرپٹ“ صدر بدل جائے گا تو کیاپیچھے کوئی عمربن عبدالعزیزؒقطار میں کھڑے ہیں جن کی باری آجائے گی؟بجلی کے بلوں یا عوام پر لگائے گئے ٹیکسوں یا پٹرول اور سی این جی کی قیمتوںمیں کسی کمی کی توقع ؟…. وہ کونسی سہولتیں ہیں جو ”جمہوریت کے لئے سب سے بڑے خطرے“ کے ٹل جانے سے ہمیںمیسر آجائیں گی۔عام لوگوں کو سول اور سیشن جج سے ہی انصاف نہیں مل رہا۔سات لاکھ کیس تو بھینس چوری اور سینہ زوری جیسے ہیں۔سپریم کورٹ تک کون پہنچے گا؟عدلیہ غلام ہو یا آزاد کوئی ا سلامی نظام تھوڑا ہی آجائے گا۔وکیلوں کی بھاری فیسوں سے نجات تھوڑی ہی مل جائے گی؟
ایک میڈیا گروپ جس نے خود مبینہ طور پر ڈیڑھ ارب کا سیلز ٹیکس چوری کیا ہے ‘ جس نے قومی بینک کے دو ارب دینے ہیں وہی ایمانداری‘ٹرانسئپرنسی اور آزاد عدلیہ کی تحریک کا سُرخیل بنا ہوا ہے۔حکومت اور حکمران تو ہیںہی نااہل….لیکن ہمیں ووٹ کا احترام سکھایا گیا۔ اسی دانشور گروہ نے عوام کو ووٹ کے نام پرورغلایا ۔تحریکیں بپا ہوئیں اور آمریت چلی گئی۔ڈیڑھ دو سال بھی صبر نہیں ‘ آج پھر عوام کو سڑکوں پر لانے کے لئے ”میڈیا پیکج“ تیار ہوچکا ہے۔ یوںمحسوس ہوتا ہے کہ کسی بین الاقوامی ایجنڈے کے تحت یہ ثابت کردینا ہے کہ یہ ملک ایک ”ناکام ریاست“ ہے۔ اس کا بننا ایک تاریخی غلطی تھی۔ اس غلطی کو درست کرنا ہے۔”امن کی آشا“ کا جھانسہ دے کر ”ہنود کی بھاشا“ کو سچ کردکھانا ہے۔
اگر حکمران کرپٹ ہیں تو ہم کون سا صالحین ہیں۔قومیں تدریجی عمل سے ہی تطہیر کی منازل حاصل کرتی ہیں لیکن یہ بات ہمارے دماغوں دلوں پر قابض لوگ کبھی سمجھنے نہیںدینگے۔
رحم کرو! اپنے اوپر رحم کرو۔اپنے بچوں کے لئے ‘خدارا سیاستدانوں کے سجائے ہوئے تھیٹر میں تماشہ بننا ترک کردو۔ اینکرز سے ہیپناٹائز ہونے کی بجائے چھپے ہوئے لفظوں کے پیچھے چھپے ہوئے مقاصدکو سمجھو‘ بولے گئے بھاشن کے پردے میں مفادات کی دیویوں کے مکروہ چہرے کو پہچانو! زرداری کو فرشتہ سمجھ کر لوگوں نے ووٹ نہیں دیئے تھے‘ ہم قرون اولیٰ کے دور میں نہیں خطاکاروں کی دنیا میں بستے ہیں ۔بہتری کی خواہش میں بدتری کی طرف مت بڑھو‘آئندہ الیکشن میں آپ ”بڑے‘ لوگوں کو ووٹ نہ دینا‘ آپ خود”اچھے “ بن جائیں۔ آپ کا پہلا مسئلہ بھوک ہے ۔ بے روزگاری ہے۔ اپنے لئے مزید مہنگائی ‘ بدحالی اور کسمپرسی کے دروازے مت کھولو!
تازہ ہوا کے شوق میں اے ساکنانِ شہر
اتنے نہ دَر بناﺅ کہ دیوار گر پڑے