Mar 17

Click here to View Printed Statement

کسی سچے پاکستانی کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ دانستہ طور پر کسی ایسے ادارے‘تحریک یا پروپیگنڈے کا حصہ بنے گا جس کا فائدہ بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو پہنچ سکتا ہو۔ اگر کچھ پاکستانی نما لوگ جان بوجھ کر ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہےں تو پھر ان کو ”را“ کا ایجنٹ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیے۔ افواج پاکستان‘آئی ایس آئی اور دیگر حساس اداروں پر بے جا تنقید پر مبنی جوتبصرے یا کالم شائع ہوتے ہیں

ان کے اکثر لکھنے والے انتہائی محب وطن ہیں البتہ ان کے اندر صحافتی عمل پذیری اس قدر بدرجہ اتم پائی جاتی ہے کہ اصلاح کے جذبے سے سرشار تحریرمیں بھی بعض اوقات بھارتی مفادات کو تقویت بخشنے والے نکات ہوتے ہیں ۔بعض اوقات ہمارے لکھاری اور دانشور اپنی تحریر اور گفتگو کو ”انکشافات“ کی چاشنی چڑھانے کے لئے ایسے بے بنیاد ”سچ“ بھی بول جاتے ہیں جو سرحد پار کئے جانے والے پاکستان مخالف پروپیگنڈے کی ضرورتوں کو پورا کردیتے ہیں۔

آجکل پاکستانی پریس کا ایک بڑا حصہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کو اپنا موضوع بنائے ہوئے ہے۔ فاضل لکھاریوں اور تبصرہ نگاروں کو اعتراض ہے کہ مدت ملازمت میں توسیع سے ”ملٹری اسٹیبلشمنٹ“ کے طاقتور ہونے کا اندیشہ پیدا ہوا ہے اورفوج کے اندر اپنے من پسند کے فیصلے کرنے کی روش جڑ پکڑ رہی ہے۔

اگرآپ آج کل بھارتی نیوز چینلز پر ان کے دفاعی اور سیاسی تجزیہ نگاروں کی گفتگو سن رہے ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ آئی ایس آئی کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع پر اسی انداز ‘ لہجے اور دلیل کے ساتھ تبصرے ہوتے ہیں جو انداز پاکستانی ‘ انگریزی روزناموں اور بعض ”اصول پسند“ کالم نگاروں کا ہے۔ بھارت میں عمومی طور پر آئی ایس آئی کے خلاف زہر تو اگلا ہی جاتا ہے ‘لیکن موجودہ سربراہ کے خلاف بھارتی حلقوںکا غصہ دےدنی ہوتا ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ آخر آجکل آئی ایس آئی بھارت کے لئے اس قدر تکلیف دہ کیوں ثابت ہورہی ہے۔؟

دو تین واقعات ایسے ہوئے ہیں جن سے بھارت کی پاکستان دشمنی بر مبنی منصوبوں کا بھرکس نکل گیا ہے۔ سوات کے اندر افواج پاکستان کو جس طرح حیرت انگیز کامیابیاں ملی ہیں اس کی توقع امریکہ‘ نیٹو فورسز اور بھارت کو ہرگز نہ تھی۔ اتنے قلیل وقت میںاتنے بڑے علاقے کو فسادیوں سے صاف کرانا اور پُرامن اور باعزت طریقے سے پچیس لاکھ لوگوں کو دوبارہ آباد کرانا وہ کارنامہ ہے جس پر بڑے بڑے عسکری اور سیاسی بزرجمہر ششدر ہیں۔سوات اور مالاکنڈ کے اندر وہاں کے رہائشیوں کی پاک فوج کے لئے والہانہ محبت بھارت کے لئے ایسا ہی حملہ ہے۔جیسے اس کا تھپڑ اسی کے منہ پر مار دیا گیا ہو۔ عام طالبانوںکو شائد علم ہی نہیں تھا کہ ان کے ہاتھوں میں جدید ترین اسلحہ کس کے پیسے سے خریدا گیا تھا۔ انہیں شائد ”را“ اور ”راما“ جیسے ناموں سے بھی واقفیت نہ ہوبہت کم جانی نقصان کےساتھ پاک فوج نے ایک لحاظ سے سوات اور مالاکنڈ کو پھر سے آزاد کرایا ہے۔ اور اس تمام کامیابی میں حکومت پاکستان افواج پاکستان اور خصوصاً آئی ایس آئی کی شاندار پلاننگ کا بڑا عمل دخل رہا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ اگرچہ نفرت سے ہی سہی لیکن اس شا ندار کامیابی کا زوردار طریقے سے اظہارکرتے ہیں اور سچ یہ ہے کہ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی سوچ میں مکمل ہم آہنگی بھارت کے لئے بہت تکلیف دہ ثابت ہورہی ہے۔

اداروں کے سربراہوں کی کوئی دائمی حیثیت نہیں ہوتی اور نہ ہی ہونی چاہیے۔ کوئی شخص کسی قومی پالیسی کے تسلسل کے لئے ناگزیر نہیں ہوتا۔لیکن کیا کیاجائے کہ اس ماہ کے آخرمیں امریکہ کے ساتھ سٹرٹیجک اشتراک پر مذاکرات ہوتے جارہے ہیں ۔آئی ایس آئی امریکیوں کو پاکستان کو بھوٹان نہ سمجھنے پر بڑی مہارت سے قائل کرچکے ہیں۔ جنرل کیانی کی لیڈر شپ امریکیوں کو یہ حقیقت سمجھانے میں کامیاب ہوئے کہ پاکستان اپنی سرزمین پر کسی غیر ملکی فوج کی طرف سے کوئی کارروائی برداشت نہیں کرے گا۔ افغانستان میں بھارت نہیں پاکستان کے سب سے زیادہ مفادات ہیں اور یہ کہ مسئلہ افغانستان کے حل میں پاکستان ہی کوئی کلیدی رول ادا کرسکتا ہے۔ یہ کہ پاکستان کا نیو کلیئر سسٹم پاکستانی ہاتھوں میں مکمل طور پر محفوظ ہے اور امریکہ پاکستان کو باقاعدہ ایٹمی طاقت تسلیم کرے۔یہ ہیں وہ معاملات جن پر پاکستان نے امریکہ کو تحریری اور ٹھوس اقدامات کرنے پر آمادہ کرنا ہے اور اس مہم کی ذمہ داری آئی ایس آئی کے سر پر ہوگی۔اگر ایسے نازک موقعہ پر ڈی جی کی تبدیل ہوتی توشائد پاکستان کا مقدمہ کمزور ہوجاتا۔ امریکہ کی یاری بھی کوئی قابل فخر عمل نہیں لیکن کم از کم بھارت سے یاری نبھانے کی سوچ بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔!

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply