Mar
19
|
Click here to View Printed Statement
قبائلی علاقوں میں کلاشنکوف کی ایک گولی کی قیمت آج کل بتیس روپے ہے۔ ایک میگزین میں تیس گولیاں پڑتی ہیں۔ ایک بار ٹریگر دبانے سے تیس گولیوں سے بھرا میگزین لمحہ بھر میںخالی ہوجاتا ہے۔ یعنی چند سیکنڈز میں کم از کم ہزار روپیہ پھونک ڈالا جاتا ہے۔ طالبان کی طرف سے صرف کلاشنکوف ہی استعمال نہیںہوتی‘مارٹر گولے تک پھینکے جاتے ہیں۔اینٹی ایئرکرافٹ گنیںچلتی ہیںاور راکٹ لانچرز کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔
جب بھی پاک فوج کے ساتھ جھڑپ ہوتی ہے یا افواج پاکستان کی چیک پوسٹوں ‘ قافلوں اور کالونیوں پر حملہ ہوتا ہے تو فوج کو جوابی کارروائی کے دوران اندازہ ہوتا ہے کہ حملہ آوروں کے پاس نہ صرف یہ کہ اسلحہ اور گولہ بارود کی بہتات ہے بلکہ ٹیکنالوجی کے اعتبار سے جدت اور خودکاری کے لحاظ سے بھی ہر اسلحہ اعلیٰ ترین معیار کا ہے۔ سرنگوں‘ ٹھکانوں اور ٹرکوں سے پکڑے جانے والے بارود و اسلحہ کے غیر ملکی ہونے کے شواہد مسلسل مل رہے ہیں۔تواتر اور تعداد میں سپلائی بھی اندازوں سے باہر ہے۔ سوات کے لوگوں کا خیال ہے کہ پاک فوج نے پیوچار کے علاقے میں پچیس ایکڑ رقبہ میں پھیلایا گیا جو اسلحہ قابو کیا تھا اگر وہ طالبان کے پاس ہوتا تو شائد اب تک اسلام آباد پر قبضہ ہوچکا ہوتا۔آج عام قبائلی یہ سوال اٹھاتا ہے کہ ان طالبان کے پاس اس قدر جدید اور مہنگا ترین اسلحہ کہاں سے آرہا ہے؟ گولیوں اور گولوں کے لئے رقم کون مہیا کرتا ہے ۔ سوات کے لوگ پوچھتے ہیں کہ پاک فوج کے خلاف اتنی بڑی اور طویل جنگ کی تیاری کا مقصد کیا تھا؟ وہ یہ دلیل ماننے پر تیار ہی نہیں کہ اس قدر جنگی تیاری اور اسلحہ کے اتنے وسیع ذخائر محض ذاتی دفاع کے لئے ہوسکتے ہیں یا یہ انبار محض کہ اسلحہ رکھنے کی روایت کا نتیجہ ہیں!
سوات سے تعلق رکھنے والے اسلام آباد میں مقیم اور زیر تعلیم طالب علموں کے ایک گروپ سے تفصیلی بحث و مباحثہ کے نتیجے میں یقین کرنا پڑتا ہے کہ بھارت کی طرف سے پاکستان کی مالاکنڈ ڈویژن میں ”اسلامی امارات مالاکنڈ“ کا ایک گھناﺅنا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ اس منصوبے کوافغان حکومت اور خفیہ اداروں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ اسلحہ اور جنگجوﺅں کی تربیت پر اٹھنے والے اخراجات ہمسایہ ملک کی طرف سے مہیا کئے گئے تھے۔سوات کے جنگجوﺅں کا تعلق بھارتی کونسل خانوں سے شائد براہ راست نہیں تھا۔مڈل مین کا کردار افغان ایجنٹ ادا کر رہے تھے۔مینگورہ شہر سے تعلق رکھنے والے طالب علم زبیر خان کا خیال ہے کہ صوبہ سرحد میں پشاور کے سوا ایم۔ایم۔ اے کی حکومت کی عملاً کہیں کوئی ”رٹ“ نہیں تھی۔ مالاکنڈ ڈویژن کے بعض کمشنرز اور ناظمین پاکستان کو کاٹنے کے اس منصوبے میں شامل تھے۔ مشرف دور کے آٹھ برس میں سوات کے اندر اسلحہ کی مطلوبہ مقدار کوبڑی آسانی سے پورا کیا گیا۔
یونیورسٹی سٹوڈنٹس کا خیال ہے کہ ”امارت اسلامی مالاکنڈ“ کا منصوبہ کبھی ناکام نہ ہوتا اگر فوج پورے سوات کو خالی کرانے کا فیصلہ نہ کرتی۔ جونہی مقامی لوگوں نے نقل مکانی کرکے سرحد کے دوسرے شہروں کا رخ کیا تو طالبانوں کے لئے چھپنے کی کوئی جگہ نہ رہی۔ خوراک کی سپلائی ختم ہوگئی وہ گھبراہٹ میں ادھر اُدھر بکھرنے لگے۔اس طرح فوج کے لئے آپریشن راہ نجات آسان سے آسان تر ہوتا گیا۔
مغربی ذرائع ابلاغ میں پاک فوج کی اس شاندار کامیابی کو حیرت اور حسد کے لہجے میں بیان کیا جاتا ہے۔ غیر ملکی عسکری تجزیہ نگاروں کو حیرت ہوتی ہے کہ پچیس لاکھ لوگوں کا انخلاءکس طرح ممکن ہوا‘ ان کے لئے میزبانی کا بہترین بندوبست کیسے کیا گیا اور ان کی واپسی کس طرح بے خطر انداز میں ہوئی۔ بعض تجزیے پڑھ کر حیرت ہوتی ہے۔آبادی کے انخلاءکے فیصلے پر دشمن منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ سوات کے لوگ جب کیمپوں میں جائیں گے اور ان کی دیکھ بھال نہیں ہوسکے گی تو یہ ردعمل کا شکار ہو کر طالبان کے حامی بن جائیں گے۔مولانا فضل اللہ کے گرفتار قریبی ساتھیوں کے حوالے سے موصول ہونے والی اطلاعات پر مبنی ایک رپورٹ کے مطابق طالبان قیادت نے اسی لئے سوات‘مینگورہ اور دیر وغیرہ چھوڑنے والوں کا راستہ نہیں روکا بلکہ اپنے عزیزواقارب اور اسلحہ نہ اٹھا سکنے والے جنگجوﺅں کو بھی انہی قافلوں کے ساتھ روانہ کردیا تھا۔رپورٹ میں لکھا ہے کہ اگر طالبان قیادت کو یقین ہوتا کہ کیمپوں میںرہنے والے زندگی کا روشن چہرہ دیکھ کر ان سے باغی ہوجائیں گے تو وہ انخلاءپر آمادہ سواتیوں کو خون میں نہلا دیتے۔
کہا جاتا ہے کہ حکومت نے فوج کے اس منصوبے کی تکمیل کا مکمل اختیار فوج کے حوالے کردیا۔ اور فوج اور آئی ۔ایس ۔آئی نے وہ کر دکھایا جس کی مثال دنیا کے کامیاب فوجی آپریشنز میں ڈھونڈنا بھی مشکل ہے۔