Apr
22
|
Click here to View Printed Statement
اگر جسونت سنگھ یہ حقیقت قبول نہ بھی کرتے تو بھی پاکستان کے لازوال وجود پر قطعاً فرق نہ پڑتا۔ یہ اس صالح فکر بھارتی رہنما کی اندر کی سچائی ہے کہ انہوںنے نہ صرف اپنی مشہور تصنیف میں اس حقیقت کو تسلیم کیا بلکہ پاکستان میں اپنی کتاب کی مارکیٹنگ کے دوران رسمی اور غیر رسمی گفتگو میں بھی اعادہ کرتے رہے۔ اسلام آباد کلب میں بھارت کے سابق وزیرخارجہ اور آج کل ہندو انتہا پسندوں کی نفرتوں کے ہدف اس سلجھے ہوئے دانشور سے مجھے ملاقات کا موقعہ ملا۔
جسونت سنگھ بڑی محبت سے ملے اور رائٹرز یونٹی کے حوالے سے اچھے جذبات کا اظہار بھی کیا۔ یہ ان کی بڑائی ہے ۔جتنا پیار انہوں نے قائداعظمؒ محمد علی جناح کی تعریف میں چند جملے لکھ کر کمایا ہے اگر قیام پاکستان کے جواز کو بھی کھلے دل و دماغ سے تسلیم کر لیتے تو پاکستانی ان کے حق میں جلوس نکالتے اور ان کے استقبال کے لئے اسلام آباد ایئرپورٹ پر پہنچ جاتے۔بہرحال سرحد پار سے ان چند جملوں کو بھی ٹھنڈی ہوا کاجھونکا تصور کرنا چاہیے اور امید رکھنی چاہیے کہ بی جے پی کے دیگر رہنما تقسیم ہند کے ادھورے عمل کی تکمیل کرتے ہوئے کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق رائے شماری کا حق دینے میں روایتی ہٹ دھرمی ترک کردیںگے۔ یہی واحد حل ہے ۔اسی طرح ہم بھارت کو پرامن ہمسائے کے طور پر دیکھ سکیں گے۔
پاک بھارت دوستی کے راگ الاپنے اور امن کی آشا کا واویلا کرنے والوں کو چند حقیقتیں اپنے پیش نظر رکھنی چاہیں۔امریکہ میںایٹمی ہتھیاروں کے حوالے سے ہونے والی سنتالیس ممالک کی عالمی کانفرنس کے موقعہ پر بھارتی لابی نے پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ثابت کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ اگر یقین نہ آئے تو ان دنوں کے بھارتی اخبارات‘امریکی اخبارات اور اسرائیلی اخبارات کا مطالعہ کرکے دیکھ لیجئے۔ چونکہ پاکستان لاالہ اللہ کے فلسفے پر وجود میں آیا تھا اس لئے پہلے کی طرح اس بار بھی تائید غیبی آئی اور وزیراعظم کی سربراہی میں جانے والے پاکستانی وفد کو غیر متوقع طور پر کامیابی ملی۔ کم از کم ایک بار ہی سہی دنیا کی طاقتوں نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو محفوظ تسلیم کر لیا اور امریکی صدر بارک اوبامہ نے بھارتی لابی کی طرف سے تیار کئے گئے صحافیوں کے سامنے پاکستان کی بھرپور وکالت کر ڈالی ۔ بھارتی وفد اور بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ صدر اوبامہ کا منہ تکتے رہ گئے اور ”رام رام“ کرتے امریکہ سے واپس چلے گئے ۔ امریکہ کے اپنے مفادات نے وہاں کے مقتدر حلقوں کو مجبور کردیا کہ وہ دنیا کو بتائیں کہ ”پاکستان ایک حقیقت ہے“ اور حقیقتوں کو جس قدر جلد تسلیم کر لیا جائے اسی قدر معاملات جلدی سلجھائے جاسکتے ہیں۔
بھارت کے عوام تو خود ہندو انتہا پسندوںکے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں۔ ورنہ ثانیہ مرزا اور شعیب ملک کی شادی کو اس قدر انا کا مسئلہ نہ بنایا جاتا۔ پل بھر میں ایف آئی آر کاٹ کر پاسپورٹ ضبط کر لیا گیا۔شعیب ملک کو تھانے بلایا گیا اورتھانہ تھانہ ہوتا ہے کوئی فائیو سٹار ہوٹل نہیں۔پاکستانیوں نے بحیثیت مجموعی شعیب ملک کے شادی کے فیصلے پر کسی ناراضگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ مختلف شہروں میں شادی کی علامتی تقریبات منائیں۔ پورے بھارت میںکسی ایک جگہ پر بھی اس شادی پر خوشی کا اظہار نہیںہوا۔شیوسینا کے کارکنوں سے لے کر کانگریس اور بی جے پی کے رہنماﺅں تک کسی ایک کو توفیق نہیں ہوئی کہ وہ شعیب ملک کو لفظی مبارکباد ہی دے دیں۔ پاکستان کی حکومت نے گو جلد بازی کا مظاہرہ کیا لیکن فردوس عاشق اعوان اس شادی میں شرکت کے لئے خود تشریف لے گئیں اور بجلی کو ترستی پاکستانی قوم کی طرف سے پچیس تولے سونے کا تاج اپنی ”بہو“ کے سر سجا کر آئیں۔ بھارتیوں کو پھر بھی شرم نہیں آئی۔ وہ جوابی طور پر شعیب ملک کو ایک جوڑا کپڑے دے سکتے تھے لیکن ان کے اندر کی میل اور دلوں کی کدورتیں دور ہوں تو پھربات بنے اور ہمسائیگی کا تاثر قائم ہوسکے ۔دوستی تو دور کی باتیں ہیں جو صرف سازشی زبانوں پر سجتی ہیں۔پاکستانیوں کے خلاف آج بھی بھارت کے اندر نفرت کا یہ عالم ہے کہ ثانیہ بیچاری کو فوراً وضاحت کرنا پڑی کہ ”میںنے پاکستانی سے شادی کی ہے پاکستان کی بہو نہیں“۔حالانکہ اس کا سب سے بڑا اعزاز یہی تھا کہ اسے پورا پاکستان اپنی بہو کا درجہ دینا چاہتا ہے لیکن ہندو انتہا پسندوں کے خوف نے اسے اس مقدس رشتے سے دور رہنے پر مجبور کردیاہے ۔ہر سال دلہن کے منہ سے یہ لفظ بھی نکل سکتے تھے کہ ”میں نے ایک مسلمان سے شادی کی ہے لیکن لفظ ”پاکستانی“ کا ادا ہوجانا اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان کسی نہ کسی صورت میں پاکستان کی حقیقت سے عشق ضرور کرتے ہیں۔
ہاں ۔ پاکستان ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو دل و جان سے تسلیم کرنے کا نام ہی دور اندیشی ہے۔پاکستان کے چند نام نہاد دانشور جو پاکستان اور بھارت کو ایک کرنا چاہتے ہیں انہیں بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ پاکستان بذات خود ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت کو مٹانے کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں گی۔ یہ کوئی مشرقی اور مغربی جرمنی نہیں جو ایک ہوجائیں نہ ہی شمالی اور جنوبی کوریا ہے جن کے ایک ہوجانے کی خواہش پالی جائے۔ وہ بھارت ہے اور یہ پاکستان ۔سچ صرف یہی ہے بھارت انصاف کرے تو ہمسایوں کی طرح رہا جاسکتا ہے۔ ایک نہیں ہوا جاسکتا ہے!