May
08
|
Click here to View Printed Statement
ایک نقطہ نگاہ یہ ہے کہ صحافی معاشرے کا عکس ہوتے ہیں۔ جس طرح کا معاشرہ ہوگا اسی طرح کا عکس ہمارے اخبارات اور ٹی وی سکرین پر دکھائی دے گا۔اخبارات اور ذرائع ابلاغ کا کام تنقید کرنا ہے اصلاح نہیں۔ اصلاح کے ادارے الگ سے موجود ہیں۔پاکستان میں آزادی صحافت کسی نے طشتری میں رکھ کر تحفے میں نہیں دی بلکہ اس کے لئے اخباری کارکنوں اور مالکان نے بے شمار قربانیاں دی ہیں اور اب کسی کی مجال نہیں کہ وہ اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی طرف میلی آنکھ سے بھی دیکھ سکے۔صحافت آزاد ہوتی ہے اس کی کوئی نظریاتی‘قومی یا جغرافیائی سرحدیںنہیں ہوتیں۔اخبار نویس کاکام خبر لگانا ہے‘اخبار کا کام اسے شائع کرنا ہے ‘اگر گھوڑا گھاس سے دوستی کرے گا تو کھائے گا کہاں سے؟۔صحافت بس صحافت ہوتی ہے‘زرد یا لال کی تفریق نہیں کی جانی چاہیے۔
دوسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ صحافت ایک پیغمبرانہ پیشہ ہے۔ صحافی بربنائے پیشہ اصلاح کار ہوتا ہے۔ صحافت گو کہ کاروبار بن چکا ہے لیکن جس طرح باقی ماندہ کاروبار قومی اور آئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کے پابند ہیں صحافی اور ذرائع ابلاغ بھی ان پابندیوں کے دائرے میں آتے ہیں۔ اگر اخبارات اور ٹی وی چینلز کاروبار کر رہے ہیں تو وہ جو چیز بیچ رہے ہیں اس کا معیاری ہونا گاہکوں یعنی قارئین اور ناظرین کا بنیادی حق ہے۔ صحافت صرف خبر کا نام نہیں۔ اس میںانفارمیشن بھی ہے۔ اینٹرٹینمنٹ بھی ہے۔ موٹیویشن ہے اور سب سے بڑھ کر اس کے اندر ایجوکیشن بھی ہے۔
ہمارے ہاں میڈیا کو آزادی مل گئی لیکن اس آزادی کے تقاضے نبھانے کے لئے کارکن اور مالکان دونوںنے کوئی تیاری نہیںکی۔
دونوں نقطہ نگاہ خاصے وزنی ہیں۔دونوں مکتبہ فکر کے حامی لوگ موجود ہیں اور اپنے اپنے دائرے میںرہ کر اپنے اپنے نقطہ نظر کاپرچار بھی کرتے رہتے ہیں۔ مجھے بھی صحافیوں ‘کالم نویسوں اوراخباری گروپوں کے ساتھ مکالمے کا موقع ملتا رہتا ہے اور جب سے رائٹرز یونٹی قائم کی ہے تب سے کالم نگار برادری کے ذریعے صحافیانہ معاملات براہ راست سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا رہتا ہے۔میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہاہے کہ پاکستان میں کسی بھی شعبہ سے منسلک شہری سب سے پہلے پاکستانی ہے اس کے بعد وہ تاجر ہے‘ٹیچر ہے‘سیاستدان ہے‘فوجی اور صحافی ہے۔ لہٰذا کسی صحافی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ قومی اور ملی مفادات کو نظرانداز کرکے محض پیشہ وری کے لئے خبریں اچھالے اور تبصرے داغے۔ جس صحافی کو ملک کی نظریاتی سرحدوں میں قید رہنا پسند نہیں وہ اس وطن کی جغرافیائی سرحدوں کی قید سے بھی باہر ہوجائے کہ دنیا بھر میں ایسے عناصر کو وطن دشمن قرار دیا جاتا ہے۔ مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہ واحد پاکستان ہی ہے جہاں لوگ پیدا ہوتے‘یہاں پر ہر طرح کا سٹیٹس انجوائے کرتے‘صحافی بن کر خود کو مخصوص مراعات کا حامل ٹھہراتے اور جب تھوڑا بہت نام اورمقام بنا لیتے ہیں تو پھر اسی ملک کی جڑیں کاٹنے کے لئے پاکستان مخالف لابیوں میں جابیٹھتے ہیں۔بیرونی ذرائع ابلاغ کو ایسی ایسی سٹوریاں بھجواتے ہیں جن کی اشاعت کے بعد پاکستان اور اہل پاکستان زخم چاٹتے رہ جاتے ہیں۔لعنت ہے ایسے صحافیوں پر جو مادر وطن سے پیار کے عام انسانی تقاضے بھی نبھا نہیں پاتے!
خبردینا صحافی کی اولین ذمہ داری ہے لیکن بعض رپورٹرز‘کالم نگار اور اینکرپرسنز تھانیداروں کی طرح صحافتی چھترول کرتے دکھائی دیتے ہیں۔میڈیا ٹرائل تو اب وطیرہ بن چکا ہے ۔ کسی ملزم کو عدالت مجرم ثابت کرے یا نہ کرے ہمارا میڈیا اس کی ایسی درگت بناد یتا ہے کہ وہ بے گناہ ہونے کے باوجود معاشرے میں منہ دکھانے کے قابل نہیںرہتا۔
اخباری مالکان نے اب ریاستی امور میں باقاعدہ مداخلت کرنا شروع کر رکھی ہے۔ یعنی اقتدار میں صرف سیاسی پارٹی بنا کر ہی حصہ نہیںلیا جاسکتا بلکہ آپ ایک طاقتور میڈیا گروپ بنا کر بھی اقتدار اور اختیار کے مزے لوٹ سکتے ہیں۔حکومت گرانا‘ گرا کر بنانا‘کس نے صدر رہنا ہے اور کسی نے چیف جسٹس بننا ہے ایسے تمام معاملات میںمیڈیا گروپس کی پوری گرفت ہوچکی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کوئی اخباری گروپ یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ اپنی خبروں میں نیوٹرل اور غیرجانبدار ہے۔
اخباری کارکن بھی سرکاری رشوتوں کے نیچے دبے ہوئے ہیں۔ پریس کلب اور ان کے نام پر ہونے والی پلاٹ ستانی نے معاشرے میں صحافیوں کی عزت اور توقیر پر کلہاڑے چلا دیئے ہیں۔ ہر حکومت‘حکمران اور سیاستدان صحافیوں کو بحیثیت برادری اور انفرادی طور پر ناجائز مراعات دیکر مطمئن کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صحافی ”ڈومور ۔ڈومور“ کے نعرے لگاتے ہیں!
آئیں صحافت کو ذمہ داری کے جوہر سے آشنا کریں‘ایمانداری کی خوشبو سے معطر کریں۔ اگر قلم بھی فروخت ہونے لگیں اور کیمرے ذاتی مفادات کو فوکس کرنے لگیں تو پھر اصلاح تو دور کی بات قومی اور شخصی آزادی بھی چھن جاتی ہے ۔ایسا نہ ہو کہ کل کا دور صحافی رہبروں اور اخباری سرپرستوں کے گلے میں پھر سے غلامی کے طوق لٹکتے دیکھے اور عوام انہیں رشوت خور‘کرپٹ اور وطن دشمن کہہ کر ”مارو اور مارو“ کی آوازیں لگا رہے ہوں
!