Jan
06
|
Click here to View Printed Statement
اکانومی واچ کے زیر اہتمام ایک سیمینار میں پاکستان کی موجودہ صورتحال کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کیوبن سفیر جناب گستاوو کا کہنا تھا ”پاکستان کو اس خطے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے ۔جس نے چین جاناہے اسے بھی یہیں سے گزرناہے جسے وسطہ ایشیائی ریاستوں تک رسائی حاصل کرنا ہے اس کا راستہ بھی یہی ہے اور افغانستان‘ ایران جیسے ممالک کا زمینی راستہ بھی یہی ملک ہے۔اس ”گیٹ وے“ پوزیشن نے دنیا بھر کے مفادات کو پاکستان سے وابستہ کردیا ہے۔
اور ان مفادات کے حصول اور بعض اوقات ان کے ٹکراﺅ کے سبب پاکستان میں امن وامان کی صورتحال پریشان کن ہوجاتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں امن وامان برقرار رکھنا بہت بڑا چیلنج ہے“۔
کسی ملک کے استحکام کا براہ راست تعلق اس کے داخلی امن سے ہی ہوتا ہے۔ بدامنی‘انارکی اور انتشار کے ہوتے ہوئے کوئی قوم آگے بڑھ سکتی ہے نہ ہی اقتصادی نشوونما کا ماحول پیدا کیا جاسکتا ہے۔ہر حکومت کی پہلی ذمہ داری بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے عوام کو امن فراہم کریں۔متحارب گروہوں کو آپس میں گتھم گتھا ہونے سے روکیں۔ اور ایسے تمام عناصر کا محاسبہ جاری رکھیں جو ریاستی قوت کو چیلنج کرتے ہوئے اپنی اتھارٹی منوانے پر بضد رہتے ہےں۔انتشار پیدا کرنے والی قوتوں کا احاطہ کیا جائے تو معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا پاکستانی بھی جانتا ہے کہ مملکتِ پاکستان کے اندرچار طرح کے گروہ ہر وقت متحرک رہتے ہیں۔ پہلا گروہ فرقہ وارانہ تشدد پھیلانے والوں کا ہے۔ دوسرا گروہ حقوق کے نام پر صوبائی منافرت کو ہوا دینے والوں کا ہے۔ افغانستان کے اندر امریکہ کی بار بار کی مداخلت کے سبب ایک نیا گروہ پیدا ہوا ہے یہ مذہبی رجحانات کے حامل لوگوں پر مشتمل گروہ ہے جو اپنی ہر بات مسلح جدوجہد کے ذریعے منوانے کی راہ پر گامزن ہوچکے ہیں۔چوتھا گروہ وہ ہے جس کے لئے کسی نظریاتی بنیاد کی ضرورت نہیں ہے یہ ڈاکوﺅں اور وارداتیوں کا ٹولہ ہر حکومت اور ہر دور میں خوف پھیلانے کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان کو گزشتہ آٹھ نو برس سے جہادی گروہوں نے اپنی اماجگاہ بنا لیا ہے۔ یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر امریکہ اپنی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے افغانستان پر یلغار نہ کرتا تو پاکستان کے اندر امن وامان کی یہ تباہ کن صورتحال پیدا نہ ہوتی۔ یہ حقیقت ہے کہ ”دہشتگردی“ کے خلاف امریکی جنگ میں پاکستان کو سب سے زیادہ قیمت چکانا پڑی ہے اور جب تک امریکہ اس خطے سے اپنی فوجیں واپس نہیں بلا لیتا ک±شت و خون کا یہ سلسلہ شائد کبھی رک نہ سکے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا اہل اقتدار اپنے طور پر بھٹکے ہوئے گروہوں اور دشمن ممالک کی ریشہ دوانیوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہے ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے کسی ملک کی وزارتِ داخلہ کی کارکردگی کا جائزہ لینا ضرور ی ہوتا ہے۔
خیال یہی تھا کہ صدر جنرل پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد فاٹا اور سوات کے علاقوں میں برسرپیکار جہادی گروہ نئی حکومت کو کچھ وقت دیں گے۔ اور اپنے نظریات اور جذبات کو جمہوری انداز میں پیش کرکے کسی مثبت نتیجے کو برآمد ہونے دیں گے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔نئے سیٹ اپ کی پہلی سہ ماہی میں منظرنامہ مزید گھمبیر ہوگیا۔ خودکش حملوں کی تعداد اور شدت میں اضافہ ہوا‘مذہبی طور پر متضاد فریقین نے توپوں تک کا استعمال کرکے ملکی یکجہتی کی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ صرف فاٹا کے علاقوں میں ہی سکیورٹی فورسز پر ہونے والے حملوں میں تیزی نہیں آئی بلکہ سوات عملاً ”نومین لینڈ“ بن گئی۔ لاہور‘کراچی‘ بھاولنگر اور ملتان تک خودکش حملے کئے گئے۔میریٹ کو تباہ کیا گیا۔”واہ“ میں تباہی مچائی گئی۔ حکومت کے لئے ”سرمنڈاتے ہی اولے پڑے“والی کیفیت ہوگئی ۔ ایسے ماحول میں وزارتِ داخلہ نے اپنے اعصاب کو شل ہونے نہیں دیا۔ ”شدت پسندوں“ کا خیال تھا کہ ان کی کارروائیاں پوری ریاست کو تہہ و بالا کردیں گی اور وہ اسلام آباد میں آکر براجمان ہوجائیں گے لیکن تمام تر کوتاہیوں کے باوجود پاکستان کی وزارتِ داخلہ اور اس کے ماتحت ادارے برق رفتاری کے ساتھ خطرناک گروہوں کے سر پر پہنچے اور دھیرے دھیرے ان کو ان کی کھچاروں تک محدود کردیا۔ آج جب ہم دیکھتے ہیں کہ پورے ملک میں محرم کے جلوس پرامن طور پر اپنی اپنی منزلوں تک پہنچتے ہیں تو مشیر داخلہ رحمان ملک اور ان کی ٹیم کو شاباش کہنے پر جی چاہتا ہے۔ جناب رحمان ملک کی خامیاں تو گنوائی جاتی رہی ہیں لیکن ان کی بہتر کارکردگی کا تذکرہ نہیں ہوتا۔ میں سمجھتا ہوں کہ سیاسی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایسے افراد کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے۔
وکیلوں کا لانگ مارچ ہو یا کراچی میں معزول چیف جسٹس کا دورہ ہو۔گڑھی خدا بخش میں شہید بے نظیر بھٹو کی برسی ہو یا سوات اور فاٹا کے لوگوں کا پارلیمنٹ ہاﺅس کے سامنے دھرنا ہو۔ مشیر داخلہ اپنی عمل پذیری اور بے خوفی کے باعث بہتر نتائج دیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ جناب رحمان ملک کا طریقہ کار ہے کہ وہ سیاسی طور پر مخالف لیڈروں سے بھی ملاقاتیں کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔کبھی وہ منصورہ کے اندر جناب قاضی حسین احمد سے ملاقات کرتے نظر آتے ہیں ‘کبھی صوبہ پنجاب کے چیف منسٹر کیساتھ اہم ترین امور پرمشاورت کرتے دیکھے جاتے ہیں۔کراچی کے نائن زیرو سے لےکر پشاور کے وزیراعلیٰ ہاﺅس تک رحمان ملک ملکی امن وامان کے حوالے سے ”فرنٹ لائن“ پر معاملات سلجھانے پہنچ جاتے ہیں۔
ملکی استحکام کا مطلب داخلی امن وامان ہے۔ اور داخلی امن کے قیام کے لئے وزارتِ داخلہ کے مشیر نے تمام سیاسی گروہوں کو اپنے ساتھ ملانے کا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ اگر ملک کو کوئی بڑا سیاسی حادثہ پیش نہ آیا تو سوات میں بھی صورتحال کنٹرول کر لی جائے گی۔