Sep
26
|
Click here to View Printed Statement
ٹرانسپئرنسی انٹرنیشنل نے کوئی انکشاف نہیںکیاکہ پاکستان کا کرپشن کے اعتبار سے ساٹھواں نمبر ہے۔ تیسری دنیا کے تمام ممالک کم و بیش مالی خوردبرد کی بیماری میں مبتلا ہیں۔آج اگر امریکہ اور یورپ کے اندر بھوک پھیل جائے تو اس کا نتیجہ بھی کرپشن کی بدترین سطح کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔ جہاں وسائل کم اور کھپت زیادہ ہو وہاں عدم تحفظ کا احساس بڑھتا جاتا ہے
اور اثرورسوخ رکھنے والے افراد میسر دولت کا کثیر حصہ سمیٹ کر بستیوں کی بستیاں غربت کے گھپ اندھیروں میں دھکیل دیتے ہیں۔ عدم مساوات کا کڑوا پھل لوٹ کھسوٹ‘خانہ جنگی اور بالائی طبقہ کی طرف سے ”لیگل کرپشن“ کی شکل میں پکتا ہے اور معاشروں کو یہی پھل کھا کر زندہ رہنا پڑتا ہے۔ اس لئے یہ کوئی خبر ہی نہیں کہ پاکستان میں کرپشن نے کسی نہ کسی طرح ہر فرد کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے بلکہ اصل خبر یہ ہے کہ ہوس زر اور آپا دھاپی کے کلچر میں پاکستان جیسے ملک کے اندر ہزاروں ایسے افراد اور ادارے ہیں جو خط غربت سے نیچے بلکتے انسانوں اور ہم وطنوں کو بچانے کے لئے بڑھ چڑھ کر نہ صرف خود خیرات کرتے ہیں بلکہ ایسے ادارے اور تحریکیں کھڑی کرتے ہیں جن سے کروڑوں پاکستانیوں کے لئے روح اور جسم کا رشتہ بحال رکھنا ممکن ہوجاتا ہے۔ قومی سطح پر جناب عبدالستار ایدھی کا نام اس حوالے سے بہت ہی محترم ہے۔ لیکن بہت سی شخصیات ایسی بھی ہیں جن کا تعارف تو مقامی درجے کا ہوگا لیکن ان کے کام کے اثرات بہت دور رس ہیں۔میرے ذاتی علم میں ہے کہ روزانہ سینکڑوں لوگوں کی بینائی بحال کرنے والے ادارے الشفاءٹرسٹ آئی ہسپتال کے بانی صدر جناب جنرل (ر) جہانداد خان اپنے آرام اور صحت کی پروا کئے بغیر کیسی تندہی کیساتھ انسانی خدمت کے اس فریضے کی ادائیگی میں جتے ہوئے ہیں۔جناب ڈاکٹر نعیم غنی صاحب اسلام آباد کے دیہی علاقوں کے لئے ریفارمر کا کام کر رہے ہیں ۔ ایسے بچے اور بچیاں جن کی معاشرتی حیثیت مزدور‘ چوکیدار اور ڈرائیور کی اولاد ہونے سے زیادہ نہیں اور جن کی معاشی حالت کسی اچھے سکول یا کالج میں داخلہ لینے کے خیال سے ہی تھر تھر کانپنے لگتی ہے‘ایسی نسلوں کواٹھا کر سلطانہ فاﺅنڈیشن کے سکولوں کالجوں میں لانا اور ان کی ذہنی اور تعلیمی کج رویوں کو درست کردینے کا کام ایک کارنامے سے کم نہیں ہے۔
عموماً حکومتی شخصیات اپنی پارٹی وابستگیوں میںہی گرفتار رہتی ہیں اور اپنی وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں میں سوائے پارٹی ورکروں اور سیاسی جوڑ توڑ کے عوامی خدمت کا کوئی منصوبہ بنتا ہے نہ ہی لوگوں کے دکھوں کا مداوا ہوسکتا ہے۔ لیکن موجودہ حکومت میں دردِ دل رکھنے والے ایسے باوصف لوگ بھی موجود ہیں جنہوں نے سیاسی حکومتی رویّوں کے عمومی تاثر کو تبدیل کردیا ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاست اور قیادت سے اختلا ف ہوسکتے ہیں لیکن پاکستان بیت المال کے نئے مینجنگ ڈائریکٹر اور پی پی پی کے سابق ایم۔این۔اے جناب زمرد خان کی ±سندرسوچ سے اختلاف ممکن نہیں۔ گزشتہ دنوں اپنے دوست بیگ راج کے ہمراہ زمرد خان کی دعوت پر ان کے دفتر میں ایک بریفنگ میں شرکت کا موقعہ ملا۔یہ جان کر بے انتہا مسرت ہوئی کہ بیت المال کے نئے ایم ڈی سرکاری فنڈز سے ہٹ کر معذور افرادکوکارآمد شہری بنانے کے لئے ایک تحریک شروع کرچ±کے ہیں۔ اپنے فیملی فرینڈز کی طرف سے ملنے والے عطیّات کے ذریعے پوٹھوار کے اس خوبصورت اور بلندآہنگ نوجوان سیاست دان نے پارٹی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر معذور اور نابینا افراد کے لئے سینکڑوں ”ویل چیئر‘۔ ’سفید چھڑیاں“ اور دیگر سہولیات تقسیم کردی ہیں اور آئندہ اس عمل کو باقاعدہ ایک تحریک کی صورت میں پورے م±لک میں پھیلانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔اس صالح عمل کی تفصیلات پڑھ کر ز±مرد خان کا ساتھ دینے کوجی چاہتا ہے ۔ لیکن جناب زمردخان کا اصل کارنامہ خالقِ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے خانوادے سے متعلق ہے۔ اخبارات میں کئی بار خبریں چھپیں کہ حضرت قائداعظمؒ کے پڑنواسے اسلم جناح اور ا±ن کا مختصر سا خاندان کراچی کے ایک پسماندہ ترین علاقے میں ٹوٹے پھوٹے کرائے کے چھپر نما گھر میں کسمپرسی کی حالت میں رہ رہا ہے۔حیرت ہوتی ہے کہ اس خبر کو چھپتے برسوں بیت گئے لیکن کسی حکمران نے کسی جماعت نے قائداعظمؒ کے خانوادے کو اس حالت زار سے نکالنے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں کیا۔ اسلم جناح ایسے خوددار کہ انہوںنے خود کوئی درخواست دینا جناح خاندان کی توہین سمجھا۔ یہ ز±مرد خان ہیں جو بیت المال کا چارج سنبھالنے کے بعد اسلم جناح کو خود ملنے کراچی جانے کا فیصلہ کیا۔ان کیساتھ وقت گذارا اور ان کی معذور بیٹی کے سرپر ہاتھ رکھا ۔ جناب زمرد خان نے بتایا کہ بیت المال کی طرف سے اسلم جناح کیلئے پچاس لاکھ روپے مالیت تک کا گھر خرید کر ان کے حوالے کرنے کی منظوری دے دی گئی ہے اور صدر اور وزیراعظم سے بات کرکے جناب اسلم جناح کو مستقل وفاقی وزیر کا درجہ بھی دلوانے کی وہ کوشش کر رہے ہیں۔یہی ا±مید ہے کہ کم از کم کروڑوں مسلمانوں کو اپنا وطن دلوانے والے قائداعظمؒ محمد علی جناحؒ کے پڑنواسے کو اسی پاکستان میں اپنا گھر تو مل جائے گا!۔ زمرد خان جیسے لوگ ہی امید کی وہ کرنیں ہیں جو گھپ اندھیروں کے چَھٹ جانے کا یقین دلاتی ہیں!۔