Aug
27
|
Click here to View Printed Statement
عوام تو یہی خواب دیکھ رہے تھے کہ پرویزمشرف کے جانے کے بعد ملک میں استحکام آئے گا اور قومی معاملات کی گاڑی پھر سے پٹڑی پر چڑھ کر بھاگنے لگے گی۔ لیکن محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی لوگوں کی آزمائشیں ابھی کم نہیں ہوئیں اور ہر روز ایک نئے بحران کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہماری سیاسی قیادتیں محلاتی جوڑ توڑ میں مصروف ہیں اور ملک معاشی‘خارجی اور داخلی محاذوں پر نت نئی شکست سے دوچار ہورہا ہے۔
انیس اگست کو پاکستانی روپیہ حوصلہ پاتا ہے تو بیس اگست کو پہلے سے بھی بے وقعت ہوجاتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج چھ سو اکسٹھ پوائنٹ سے اوپر اٹھتی ہے اور دو روز کے بعد پھر اسے بریکیں لگ جاتی ہیں۔ اٹھارہ اگست مشرف کے استعفیٰ کے روز مسور کی دال 80 روپے فی کلو فروخت ہوتی ہے لیکن پانچ دن بعد ایک سو دس روپے تک جاپہنچتی ہے ۔ ایل ۔ پی۔ جی گیس‘گھی اور آٹا عوام کی پہنچ سے دور ہوتے جارہے ہیں۔ میرپور خاص کا ایک تیرہ برس کا بچہ آٹاچوری کے جرم میں حوالات میں بند ہوتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ اس کے والد ٹی بی کے مریض ہیں اور گھر میں تین روز سے فاقے ہیں۔ مجبوراً آٹا چرانا پڑا۔ اگر چوری کا موقع ملے اور اس پر کوئی سزا کا خطرہ نہ ہو تو حالات اس قدر دگرگوں ہیں کہ ہر دوسرا فرد آٹا چور بن جائے۔
مشرف دور میں مبینہ دہشتگرد پانچ سو بتائے جاتے تھے۔ جناب وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ جانے سے پہلے انکشاف کیا تھا کہ ان کی تعداد پانچ ہزار ہوگئی ہے اور آجکل پورا صوبہ سرحد عملاً حالتِ جنگ میںآچکا ہے۔ بم مارنے کے لئے ایف 16 کا استعمال بھی شروع ہوچُکا ہے۔ شیعہ اور سنی فسادات باقاعدہ خانہ جنگی کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ اور صوبہ سرحد کا گورنر خبر دیتا ہے کہ فاٹا میں نئی ریاست کے قیام کی سازشیں ہورہی ہیں۔
دن بھر گرمی اور غربت کے ستائے ہوئے لوگ جب سونے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں تو واپڈا والے ٹھیک اُس وقت بجلی بند کردیتے ہیں اور صبح جب کام کاج کے لئے تیاری کرنا ہوتی ہے تو پھر لوڈشیڈنگ کا حملہ ہوجاتا ہے۔ نوید سنائی جارہی ہے کہ رمضان کے مقدس ماہ میں سحری اور افطاری کے اوقات میں بجلی بند نہیں ہوا کرے گی لیکن حقیقتِ حال یہ ہے کہ بجلی پیدا کرنے والے پرائیویٹ پاور پراجیکٹس کو حکومت نے ایک سو بیس ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے لیکن خزانے میں رقم ہی نہیں اور ان برقی پیداواروں نے دھمکی دی ہے کہ اگر انہیں تیل اور رقم نہیں ملے گی تو وہ یکم ستمبر سے بجلی کی پیداوار بندکردیں گے گویا پانچ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ پندرہ گھنٹوں تک پہنچ جائے گی۔
بلوچستان کے لوگ‘ سوات اور باجوڑ کے بے بس شہری اپنے ہی ملک میں دربدر ہو رہے ہیں اور ایک ہزار کے لگ بھگ تو ایسے بھی ہیں جنہوں نے اپنے ملک میں پناہ لینا بھی گوارا نہیں کیا اور وہ افغان صوبہ کنڑ کی طرف ہجرت کرگئے ہیں۔
نظام حکومت مشین کی مانند ہوتا ہے۔ اس کے اگر ُپرزے ہی پورے نہ ہوں تو مشین کا چلنا نہ ممکن ہوجاتا ہے۔ گزشتہ چھ ماہ میںموجودہ حکمران ضروری وزارتوں کے لئے بھی لوگ حاصل نہیں کرسکے۔ (ن) لیگ اپنے قول و اقرار کے سبب ابھی تک لٹک رہی ہے۔ وہ گاہے اس حکمران اتحا دکا حصّہ ہیں اور گاہے اس سے الگ۔قوم کو ایسے عذاب میں مبتلا کرنے سے حاصل کیا ہے؟ سیاسی کشمکش تمام ملکوں کے اندر جاری رہتی ہے لیکن قومی سطح پر کرنے والے معاملات کو تو چلتے رہنا چاہئے۔آخر ایسی بھی کیا نااہلی ہے کہ مُلک میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کو متحرک نہ کیا جاسکے اور واپڈا حُکام کے ساتھ بیٹھ کر لوڈشیڈنگ کا کوئی قابل برداشت فارمولا طے نہ کیا جاسکے۔
امریکہ کی خاطریا اس کے خوف سے جو خونی آپریشنز کئے جارہے ہیں ‘ ان کے بدلے صرف بھوک ہی ملتی ہے تو پھر ایسی جنگ کا حاصل کیا ہے؟ کیا یہ بھی ممکن نہیں کہ ہماری سیاسی قیادتیں باہم مل کر امریکہ سے سیدھے اور صاف لفظوں میں بات کرسکیں کہ اگر اسے اس خطّے میں امن کے ساتھ رہنا ہے تو پھر پاکستان کے مالی معاملات ہی سنبھال لے۔خون کے بدلے ”مونگ پھلی“ تو سراسر ناانصافی ہے۔
محترم نسیم انور بیگ نے سچ فرمایا کہ فاٹا سوات اور باجوڑ میں فوجی آپریشن کے دوران گرنے والی لاشوں کی تعداد دوسری جنگِ عظیم میں ہونے والے انسانی ضیاع کو پیچھے چھوڑ گئی ہے۔
میاں محمد نوازشریف اگرزرداری صاحب کے رویّوے سے بددل ہیں تو پھر احسن طریقے سے حکمران اتحاد سے الگ ہوجائیں اور جناب آصف علی زرداری کو اپنی ٹیم کے ہمراہ مکمل طور پر معاملات چلانے دیں تاکہ کسی سطح پر یکسوئی تو پیدا ہوسکے اور اگر پاکستان کی مجبوریاں اور جناب آصف زرداری کے بندھے ہاتھوں کا احساس ہے تو پھر پی پی پی کی قیادت کو کھلے دل سے وقت دیں‘ ان کے ساتھ بلامشروط تعاون کریں اور اپنی ترجیحات میں حالتِ جنگ میں ادھموئے پاکستان کی طرف دھیان دیں۔
جناب آصف زرداری بھی نت نئے معاہدے اور وعدے کرنے کی بجائے بہادروں کی طرح صاف لفظوں میں اپنی پالیسی اور ارادوں کا اظہار کریں‘ قوم کو اعتماد میں لیں اور کسی نہ کسی طور مُلک کو اس ہیجانی کیفیت سے باہر نکالیں۔ مجھے یقین ہے کہ موجودہ سیاسی لیڈر شپ اپنے داخلی انتشار اور اختلاف کے باوجود اگر پاکستان کو اپنی پہلی ترجیح سمجھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم تنزّلی کے عمل سے رُک جائیں۔ اگر معزول چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری اور موجودہ چیف جسٹس جناب ڈوگر صاحب پاکستان کے حالات کو مدنظر رکھیں تو رضاکارانہ طور پر استعفیٰ دے دیں۔ اس طرح میاں نوازشریف اخلاقی طور پر بری ہوجائیں گے اور ملکی معاملات کا رکا ہوا پہیہ پھر سے چل پڑے گا۔
بحران ٹل سکتے ہیں ‘ اصل مسئلہ نیّت کا ہے کیونکہ اعمال کا دارومدار ہی نیتوںپر ہوتا ہے!