Dec
20
|
Click here to View Printed Statement
دنیامیں کوئی ملک ایسا نہیں جس کی خارجہ اور داخلہ پالیسی میں اپنے دوستوں اور دشمنوں کا خیال نہ رکھا جاتا ہو۔قابل اعتبار ممالک وہی ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت دوستی کے معیار پر پورا اترتے ہوں اور دوستی کا معیار یہی ہے کہ دوست وہ جو ضرورت کے وقت کام آئے۔
پاکستان اور سعودی عرب کی دوستی کسی جغرافیائی وحدت یا ہمسائیگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ پاکستانی عوام کا خادمین حرمین شریفین سے ایک طرف انتہائی احترام کا تعلق ہے تو دوسری طرف سرزمین حجاز سے کبھی نہ ختم ہوسکنے والا مذہبی اور قلبی رشتہ بھی ہے۔کعبة اللہ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم دو ایسے مقدس اور ابدی مقامات ہیں جنہوں نے پورے عالم اسلام کے ساتھ آل سعود سے دل و جان سے جوڑ رکھا ہے۔ مسلم امہ کی خوش نصیبی یہ ہے کہ خادمین حرمین شریفین مرکز و محور ہونے کی ذمہ داریوں پردینی اور سیاسی ہر دو اعتبار سے پورا اتر تے چلے آرہے ہیں۔ ہر سال لاکھوں حجاج اکرام کی خدمت اور سہولت کے لئے سعودی عرب کی حکومت اپنے بجٹ کا کثیر حصہ خرچ کرتی ہے۔ جب بھی کسی مسلمان ملک میں قحط‘زلزلہ یا کوئی ناگہانی مصیبت آتی ہے تو سعودی عرب کی حکومت سب سے بڑھ کر مدد فراہم کرتی ہے۔ یہ الگ بات کہ سعودی حکمران خاندان عجزو انکساری دکھاتا ہے اور اپنے امدادی کاموں کی بہت زیادہ تشہیر نہیں کراتا۔
پاکستان کے حوالے سے ہر کڑے وقت میں سعودی عرب نے سگے بھائیوں سے بڑھ کر پاکستانی بھائیوں کا ساتھ دیا ہے۔ پاکستان میں جب بھی عدم استحکام کا مرحلہ آیا تو حجاز مقدس کی سرزمین سے ہمیشہ ٹھنڈی ہوائیں ہی چلی ہیں ۔ پاکستانیوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہمارے اپنے پیدا کئے ہوئے مسائل سے جنم لینے والے محلاتی اور سیاسی جھگڑوں کو سلجھانے میں سعودی عرب کی حکومت نے کبھی کنی کترانے یا لاتعلقی ظاہر کرنے کی کوشش نہیں کی۔ جب بھی پاکستان کے اندر دو حکمران‘سیاسی گروہوں کے درمیان چپقلش مملکت اسلامیہ کی سا لمیت کے لئے خطرہ بنتی دکھائی دی ہے تو قرآنی حکم کے عین مطابق سعودی فرمانمروا آگے بڑھے ہیں اور دونوں متحارب بھائیوں میں صلح کرائی ہے اور پاکستان کو تباہی کے گڑھے میں گرنے سے ہر حال میں بچایا ہے۔
ماضی بعید میں جائے بغیر گزشتہ آٹھ برس کے واقعات پر نگاہ ڈالئے۔ آج یہ مسلمہ حقیقت سب پر عیاں ہوچکی ہے کہ اگر ہمارے سعودی بھائی مداخلت نہ کرتے تو شریف خاندان کے ساتھ سنگین حادثہ پیش آسکتا تھا۔ اور خدانخواستہ اگر ذوالفقار علی بھٹو کی طرح میاں نوازشریف کو کسی غیر مقبول عدالتی فیصلہ کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے تو پاکستانی عوام اور افواج پاکستان کے درمیان کبھی نہ ختم ہونے والی خلیج حائل ہوجاتی اور ملک اندرونی طور پر کھوکھلا ہو کر رہ جاتا۔ مالی خسارہ برداشت کرکے خادمین حرمین شریفین نے جہاں صدر جنرل (ر) پرویزمشرف کو کسی انتہائی اقدام سے باز رکھا وہیں شریف خاندان کو اپنے ہاں انتہائی عزت و وقار سے مہمان بنایا۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کے لئے یہ ایک ایسی دوستانہ قربانی ہے جس پر دل تشکر سے لبریز ہوجاتا ہے۔
جب حالات بدل گئے اور سعودی عرب کو یقین ہوگیاکہ اب پاکستان کی سالمیت میاں برادران کی واپسی کا تقاضا کر رہی ہے تو تمام تر بیرونی اور پاکستانی حکمران کے دباﺅ کے باوجود شریف خاندان بڑے ہی باوقار طریقے سے پاکستان واپس آچکے ہیں۔ ایسی باعزت واپسی پر بھی پاکستانی قوم کو سعودی بھائیوں کا مشکور ہونا چاہئے۔
افسوس یہ کہ ہمارے بعض ناعاقبت اندیش حلقوں نے میاں نوازشریف کی اسلام آباد ایئرپورٹ آمد کے حوالے سے سعودی عرب کے کردار کو بے جا حرف تنقید کا نشانہ بنایا اور ابھی تک وہ سعودی عرب کے دوستانہ فرض کو ”غیر ملکی مداخلت“ قرار دے کر اپنے محسنوں کے خلاف زہرآلود خیالات اگل رہے ہیں۔
پاک سعودی عرب دوستی کے سچے داعی پاکستان میں سعودی سفیر عزت مآب جناب علی عواد العسیری نے انتہائی درد دل کے ساتھ ہمارے واجب الاحترام معزول چیف جسٹس کے گھر جا کر ملاقات کی اور غیر رسمی گفتگو کے دوران انہیں حج پر جانے کی دعوت دے دی۔ پاک سعودی دوستی کے دشمنوں نے اس ملاقات کے حوالے سے ایک طوفان بدتمیزی پیدا کردیا۔
گزشتہ دنوں اومان کے قومی دن کے موقعہ پر جناب العسیری صاحب سے ملاقات ہوئی۔ ان کا دل دکھا ہوا تھا۔ کہنے لگے‘
”مسٹر مغل! پاکستان میرا دوسرا گھر ہے‘ آپ پاکستانی لوگ ہمیں اپنے بھائیوں کی طرح عزیز ہیں۔ ہم ایسا کام کیوں کریں گے جو ہمارے اس گھر کی سالمیت اور استحکام کے خلاف جائے اور جس سے ہمارے بھائیوں کو تکلیف ہو“۔
پھر انہوںنے کہا” دلوں کے بھید اللہ جانتا ہے۔لیکن سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کبھی متاثر نہیں ہوسکتے“۔
مجھے عزت مآب العسیری صاحب کے گرم جوش معانقے نے یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ ہم بھی کتنے ”نا شکرے“ قسم کے لوگ ہیں۔قرآن ہمیں اپنے محسنوں کے احسانات یاد رکھنے کا حکم دیتا ہے اور ہم انہی سایہ دار درختوں پر سنگ باری کرتے ہیں جن کے نیچے بیٹھ کر زمانے کی طرف سے برسائی گئی زہریلی بارشوں سے بچتے اور وقت کی کڑی دھوپ سے پناہ پاتے ہیں۔ ہم اپنے اندرونی معاملات کو خود سلجھانے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اور جو دوست ہمیں آگ کے گڑہوں سے بچانے میں اپنے ہاتھ تک جلا لیتے ہیں انہیں بھی مشکوک نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا یہ قومی رویہ خود ہمارے اخلاقی زوال کی نشاندہی کرتا ہے۔ ہم سعودی عرب سے شکوہ کیوں کرتے ہیں ؟۔