Jun
21
|
Click here to View Printed Statement
ماضی میں غریب غرباءاپنی غربت اور تنگدستی کو اپنا مقدر سمجھ کر دھیرے دھیرے موت کی طرف بڑھتے رہتے تھے۔بغاوت کا آپشن عام نہیں ہوا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ساٹھ اور ستر کی دیہائیوںمیں اشتراکی نظریات اپنے تمام تر پرکشش نعروں کے باوجود پاکستانی معاشرے میں جڑ نہ پکڑ سکے اور روس اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ نے پاکستانی عوام کو روس سے بڑی حد تک لاتعلق ہی رکھا۔
جناب ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کے احساس محرومی کو مقامی رنگ میں ابھار کر امیر اور غریب کے درمیان حائل خلیج میں اپنے سیاسی بیڑے کو اتارا اور کسی خونی خانہ جنگی کے بغیرکامیابی کے ساحل پر اتر گئے ۔وقتی طور پر محروم طبقوں کی زبان بندی ہوگئی لیکن بھٹو کے روٹی‘کپڑے اور مکان کے نعرے نے غریبوں کے اندر یہ احساس ضرور پیدا کردیا تھا کہ غربت ان کا مقدر نہیں بلکہ اُمراءکی طرف سے مسلط کردہ ایک نظریہ ہے۔تعلیم کے عام ہونے اور ذرائع ابلاغ کے آزاد ہونے کے سبب بھی ایک بنیادی تبدیلی آئی۔ہوسکتاہے کہ اس تبدیلی کے بارے میں خود ذرائع ابلاغ کو بھی علم نہ ہو۔اسلامی عقائد کی تشریح اور قرآنی آیات کی تفسیر عام ہوئی اور وسائل کی تقسیم کے حوالے سے غلط مذہبی تصورات کو بہت بڑا دھچکا لگا۔ طبقہ اشرافیہ کے بارے میں پھیلائے جانے والے احترام بھرے عقائد باطل ثابت ہوئے اور حقوق کے قرآنی تصور نے پاکستانی عوام کے اندر بغاوت کے جواز کا راستہ بنا لیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ ریاست کے وسائل کی تقسیم تمام شہریوں میں برابر تقسیم کرنے کا مطالبہ عین اسلامی ہے اور اگر ایک طبقہ ان وسائل پر قابض ہو کر پچانوے فیصد شہریوں کے لئے غربت اور تنگدستی کاسامان کرے تو پھر ایسے طبقوں سے اپنے حقوق چھین لینا بھی ایک جہاد ہے۔
پاکستان میں رائج معاشی نظام کا حاصل یہی ہے کہ مخصوص طبقہ بسیار خوری جبکہ محروم طبقہ بھوک سے مر رہا ہے۔جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ نے قومی دولت لوٹنے کے نت نئے طریقے اختیار کئے اور عوام کے ووٹوںکو محض اپنی لوٹ مار کے تحفظ کے لئے استعمال کیا ہے۔
اگر طالبان کی تحریک محدود مذہبی نظریات کی بجائے اسلام کے معاشی نظام کی بنیاد پر آگے بڑھتی تو پاکستان کے نوے فیصد لوگ ان کو خوش آمدید کہتے اور اب تک پاکستان میں واقعتاً انقلاب برپا ہوچکا ہوتا۔پاکستان میںغربت کا عالم یہ ہے کہ آپ چند ہزار روپے کے عوض کسی بھی نوجوان کو خودکش بمبار بنانے پر آمادہ کرسکتے ہیں ‘کوئی صحت مند شخص محض پچاس ہزار روپے کے عوض اپنا گردہ بیچ سکتا ہے اور تنگدستی کے ہاتھوں تنگ آئے کسی پاکستانی کو اپنے بچوں کو زہردینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوتی۔
لوڈشیڈنگ کےخلاف مظاہرہ ہو تو نوجوان تشدد پر اتر آتے ہیں‘بیکریاں اور جنرل سٹور لوٹے جاتے ہیں اور طبقہ امراءسے وابستہ ہرنشانی جلا کر راکھ کر دی جاتی ہے۔کراچی میں آپ تھوڑے سے پیسوں کے عوض قاتل بھرتی کرسکتے ہیں۔پنجاب کے گبھرو نوجوان گھر کا چولہا جلانے کے لئے غیر ممالک کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے گولیوںکانشانہ بنتے ہیں لیکن پھر بھی موت کی طرف ہجرت جاری ہے۔ کرغیزستان سے بچ کر آنے والے پاکستانی سٹوڈنٹس نے محض اس غرض سے وطن چھوڑا کہ یہاں وہ بھاری تعلیمی اخراجات برداشت کرنے سے قاصر تھے۔ ان کے گھروں کی تصویریں دیکھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ انہوںنے اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حدود سے باہر قدم کیوں رکھا تھا۔
پاکستان میں حکمران طبقہ میں واحد ایک حکمران ہے جس کو امیر اور غریب کے درمیان بڑھتی ہوئی خلیج کے خطرناک نتائج کا ادراک ہے۔جناب شہبازشریف شروع دن سے طبقہ امراءکو بار بار آگاہ کر رہے ہیں کہ اگر محروم عوام کی داد رسی نہ ہوئی تو انقلاب سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔سستی روٹی سکیم اور بے روزگار نوجوانوں میں زرعی اراضی کی تقسیم جیسے تمام اقدامات دراصل اسی خوف کے تحت اٹھائے گئے ہیں۔
چند روز قبل لاہور کے ایک رکشہ ڈرائیور نے اپنی بچیوں کو زہردے کر خود بھی زہر کھا لیا تھا۔وزیراعلیٰ پنجاب جناب شہبازشریف نے بچ جانے والی ماں اور اس کے بچوں کو دس لاکھ روپے کی گرانٹ کا اعلان کیا اورمفت تعلیم کی نوید سنائی ۔ ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اگر خودکشی کرنے والے رکشہ ڈرائیور کو اس کی زندگی میں پانچ لاکھ روپے مل جاتے اور اسے کسی بہتر روزگار پر لگا دیا جاتا تو شائد آج دس لاکھ دینے کی ضرورت نہ پڑتی۔
انفرادی خیرات کرنے سے غربت دور ہونہیں سکتی جب تک حکومتیں اپنے اللے تللے ترک نہیں کرتی اور حکمران طبقہ کی ضرورت سے زائد دولت عوام کے اندر گردش نہیں کرتی تب تک عوام کے احساس محرومی میں کمی نہیں آئے گی۔ عوام کو دال ملتی رہے تو شائدحکمرانوں کے مرغی کھانے پر اعتراض نہ ہو لیکن جب کثیر آبادیوں میں فاقے ہوں اور طبقہ اشرافیہ فائیو سٹار زندگی کے مزے اڑا رہا ہو تو پھر خودکش بمبار اور خودکشی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا۔ محرومی کا احساس بغاوت بنے گا اور مقدر والی دلیل اس بغاورت کا راستہ نہیں روک سکے گی۔یہ بغاوت بھیانک شکل میں سامنے آرہی ہے۔ خونی انقلاب دستک دے رہا ہے!