Jul
28
|
Click here to View Printed Statement
بعض سیاسی حلقے سپہ سالار جنرل پرویز کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کو ”متنازعہ“ بنانے کی معصومانہ کوششوں میں مصروف ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں محمد نوازشریف نے جنرل (ر)مشرف کی طرف سے ہونے والے برے سلوک کا غصہ بھی جنر ل کیانی کے بارے میں کئے گئے فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بنا کر ٹھنڈا کیا ہے حالانکہ نہ سارے جرنیل مشرف کی سوچ کے حامل ہوتے ہیں اور نہ ہی سارے وزرائے اعظم جناب میاں محمد نوازشریف کی طرح جلد باز اورمختار کُل بننے کے جنون میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
نہ یہ 1998ءہے اور نہ ہی کارگل جیسا کوئی ناکام آپریشن ہوا ہے۔ زمینی حقائق بالکل مختلف ہیں اور وہ حقائق یہ ہیں کہ افواج پاکستان گزشتہ سولہ ماہ سے اپنے ہی وطن میں دشمن کی طرف سے مسلط کی گئی پراکسی وار میں الجھی ہوئی ہے ۔ سوات میں جس طرح ہماری بہادر مسلح افواج نے آپریشن راہ راست میں دشمن کا صفایا کیا ہے اس پر خود امریکی اور بھارتی حلقے انگشت بدنداں ہیں۔ مشرف کی طالع آزمائی نے افواج پاکستان کے امیج کو اندرون اور بیرون ملک اس قدر داغ دار کردیا تھا کہ عام پاکستانی شہری کے چہرے پر فوج کا نام سنتے ہی نفرت کی لکیریں ابھر آتی تھیں۔کور کمانڈرز پرکروڑ کمانڈرز کی پھبتی زبان زدعام ہوچکی تھی اور پاکستانی افواج کو فائٹنگ آرمی کی بجائے گورننگ آرمی کا طعنہ دیا جارہا تھا۔ یہ جنرل کیانی کی پیشہ وارانہ سوچ ہی تھی جس نے فوج کے اندر ایک نئی روح پھونکی‘ سپاہی کا اعتماد بحال کیا اور افواج پاکستان دنیا کی بہترین‘منظم اور فاتح فوج بن کر سامنے آئی۔دشمن کے پھیلائے ہوئے بارودی جال کی ہر کڑی کو اپنی جانوں کے نذرانے دے کر فوج نے کاٹا اور پاکستانیوں کو ”یرغمالیوں“ کے چنگل سے نکال کر آزاد کردیا۔ آج حالت یہ ہے کہ دشمن کے اکاّ دکاّ خودکش حملہ آور چھپ چھپا کر وارداتیں تو کرتے ہیں لیکن باقاعدہ فورس کا وجود نہیںرہا۔ اور ایسے مجروح ہوئے ہیں کہ پاکستان کی جغرافیائی حدود کے اندر اپنی آزاد ریاست قائم کرنے کے دعوے کرنے والے اب افغانستان کے غاروں میں جا چھپے ہیں۔دہلی والے پریشان ہیں کہ کابل کے ذریعے انہوں نے پاکستان کو توڑنے کے جو منصوبے بنائے تھے وہ سب کے سب افواج پاکستان کے حوصلوں کے سامنے خواب و خیال ہو کر رہ گئے ۔آپریشن راہ راست کے بعد راہ نجات آپریشن بھی زوروں پر ہے۔شمالی وزیرستان دشمن سے خالی کرایا جاچکا ہے اور چند روز بعد محسود قبائل واپس اپنے گھروں کا رخ کر رہے ہیں ۔خدا سے امید یہی ہے کہ پاکستان کو پاک آرمی ہر طرح کی سازشوں سے نجات دلا کر ہی دم لے گی۔
جنرل کیانی کو ملازمت میں توسیع دینے کے پیچھے حکمرانوںکی کیا نیت ہے اس بارے کچھ نہیں کہا جاسکتا لیکن حقائق سے یہ احساس ابھرتا ہے کہ جناب کیانی کی طرف سے اپنی مدت ملازمت کی توسیع کے حوالے سے کبھی کسی دلچسپی کا اظہار سامنے نہیں آیا۔جب آئی۔ایس ۔آئی کے ڈی جی کو ان کے عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ ہوا تھا تو ہمارے کچھ دوستوں نے بتایا تھا کہ اس فیصلے سے قومی اور عسکری پالیسیوں کے تسلسل میں مدد ملے گی اور یہ کہ جنرل کیانی کی فراغت کے بعد آئی ۔ایس۔آئی آنے والے نئے چیف کو بہتر طور پر مشاورت دے سکے گی۔ یہ بات میرے ذاتی علم میں ہے کہ افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ سے قربت رکھنے والے بعض دانشوروں اور کالم نگاروں کی طرف سے ایسے مضامین چھپے جن میں چیف آف آرمی سٹاف کی مدت ملازمت میں توسیع کی نظریے کی مخالفت کی گئی تھی۔
ملکوں کی اپنی ضرورتیں ہوتی ہیں۔جوں جوں وقت گزر رہا ہے۔امریکہ‘ بھارت اور کابل کی طرف سے جنرل کیانی کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے پیدا ہونے والی ”تشویش“ بھی سامنے آرہی ہے ۔مجھے خدشہ ہے کہ پاکستان کا گھیراﺅ کئے ہوئے ان طاقتوں کے زرخرید بعض اخبار نویس اور سیاست دان آنے والے دنوں میں چیف آف آرمی سٹاف کے خلاف مزید زہر اگلیں گے اور ان کی کوشش ہوگی کہ منفی پروپیگنڈا سے متاثر ہو کر جنرل کیانی خود ہی کوئی فیصلہ کر لیں۔
جنرل کیانی نے کابل میں صدر کرزئی کے ساتھ اور اسلام آباد میں امریکیوں کے ساتھ جتنی ملاقاتیں کی ہیں۔ ان میں یہ باور کرایا ہے کہ افواج پاکستان کے اہداف کسی غیر ملکی طاقت کے مفادات کے طابع نہیں ہوسکتے۔ کہاں آپریشن کرنا ہے اور کس طرح کرنا ہے اس کا فیصلہ پاکستانی مفادات کے تحت ہی کیا جائے گا۔ اس پر امریکی حلقے سٹ پٹائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔دوسری تکلیف دہ بات بھارتی حلقوں کے لئے ہے اور وہ ےہ کہ سپہ سالار نے اپنی قومی قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد امریکیوں پر واضح کردیا ہے کہ پاکستان جنوبی ایشیاءمیں بھارت کی بالادستی کے امریکی منصوبے کو قطعاً قبول نہیں کرتا اور تیسرا معاملہ بعد از امریکہ افغانستان کے معاملات ہیں۔یہ جنرل کیانی ہی ہیں جنہوں نے کھل کر کہا ہے کہ دہشتگرد پاکستان سے افغانستان نہیں بلکہ افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں اور یہ کہ افغانستان کے معاملات کو سدھارنے کے لئے بھارت نہیں پاکستان کا کردار لازمی اور لازوال ہوگا۔ پاک چین ایٹمی تعاون کے معاملے پر بھی حکومت اور کیانی کا موقف امریکہ اور بھارت کے لئے بہت تکلیف دہ بنا ہوا ہے۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کے سبب حکومت پاکستان نے جنرل کیانی کو ہی چیف کے عہدے پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔نیا آرمی چیف نہ لانے کا مطلب ہی یہ ہے کہ پاکستان اس وقت کوئی ایسا خطرہ مول نہیں لے سکتا جس سے اس کے مفادات کو گزند پہنچ سکتی ہو!