May 09

Click here to View Printed Statement

قومی اسمبلی کی 8 اور صوبائی اسمبلیوں کی 30 نشستوں کے ضمنی انتخابات 18جون کو ہونے تھے مگر پیر کے روز الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں صوبہ سرحد میں امن و امان کی صورت حال اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے مجوزہ بجٹ اجلاسوں کو جواز بناتے ہوئے اعلان کیا گیا ہے کہ ضمنی انتخابات اب 18اگست کو ہوں گے۔ یہ اعلان بظاہر اتنا اچانک اور غیرمتوقع تھا کہ تقریباً تمام ہی مکاتب فکر کی جانب سے اس پر شدید ردعمل سامنے آیا۔

وزیراعظم اور دیگر وزراءکے دفاتر سے لیکر مخلوط حکومت میں شامل جماعتوں کے قائدین اور حزب اختلاف کے ارکان تک کی طرف سے اس فیصلے پر نکتہ چینی کی گئی اور بعض حلقوں نے تو اسے نئی جمہوری حکومت کےخلاف سازش تک قرار دیدیا۔ مسلم لیگ (ن) کے حلقوں نے اس سلسلے میں ایوان صدر کو مورد الزام ٹھہرایا جس کے جواب میں پریذیڈنسی کے ترجمان نے فوری طور پر یہ وضاحت ضروری سمجھی کہ صدر مملکت کے پاس انتخابات ملتوی کرنے کا کوئی اختیار ہے نہ الیکشن صدر کی ہدایت پر ملتوی کئے گئے ہیں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن نہ تو صدر کو سمری ارسال کرتا ہے، نہ ہی ایوان صدر میں ایسی کوئی سمری منظور کی جاتی ہے، انتخابی کمیشن ایک خودمختار ادارہ ہونے کی حیثیت سے اپنے فیصلے خود کرتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے سیکرٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ سرحد حکومت کے ایک ”ریڈ الرٹ لیٹر“ کی بنیاد پر کیا گیا جس میں صوبہ سرحد میں امن و امان کی صورت حال کو غیرتسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔ اس کا جواب وزیر اعلیٰ سرحد امیر حیدر خان ہوتی کے ایک بیان کی صورت میں سامنے آیا جس کے مطابق انہوں نے ضمنی الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست مرکزی حکومت کے مشیر داخلہ رحمٰن ملک کے کہنے پر دی تھی۔ وزیر اعلیٰ سرحد کے مطابق انہیں ٹیلیفون پر انتخابات مختصر مدت کےلئے ملتوی کرنے کی تجویز دی گئی تھی اور یہ کہا گیا تھا کہ تین صوبے پہلے ہی انتخابات کے التوا پر رضامند ہوچکے ہیں۔ سرحد حکومت کے اس بیان کے بعد پاکستان پیپلزپارٹی کے ترجمان فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ رحمن ملک کو اس ضمن میں پارٹی اور میڈیا کے سامنے اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہئے۔ ان سطور کی اشاعت تک ممکن ہے مشیرداخلہ کا موقف قوم کے سامنے آچکا ہو۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ کچھ دوسری تفصیلات کے ذریعے مذکورہ فیصلے کے اسباب و علل واضح کئے جائیں۔ اس کے باوجود یہ بات نظرانداز نہیں کی جانی چاہئے کہ اگر انتخابی التوا کے اہم فیصلے سے قبل سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرلی جاتی تو اس نوع کے فیصلے سے بچنا یا کم از کم ان اندیشوں کا سدباب کرنا ممکن ہوتا جن کا اظہار بعض حلقوں میں کیا جارہا ہے۔ بلاشبہ الیکشن کمیشن آزاد ہے اور اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ انتظامی نوعیت کے اقدامات اپنے طور پر ہی کرے گا مگر اس نوع کے فیصلے سیاسی حلقوں کو اعتماد میں لیکر اور ان کی مشاورت سے کئے جائیں تو ایسے بہت سے شکوک و شبہات سے بچا جاسکتا ہے جو پاکستان کے مخصوص حالات میں سر ابھارتے رہتے ہیں۔ موجودہ منظرنامے میں ایک آواز یہ ابھری ہے کہ ضمنی انتخابات میں تاخیر کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کو پنجاب اسمبلی کا ممبر اور پھر وزیراعلیٰ منتخب ہونے سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کچھ دیگر امیدواروں کے حامی بھی یہ موقف اختیار کررہے ہیں کہ انکے پسندیدہ رہنماﺅں کے انتخاب کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کی گئی ہے۔ یہ باتیں اس بنا پر وزن نہیں رکھتیں کہ انتخابات 18فروری ہی کی طرح منصفانہ ہونے کی حقیقی توقعات ہیں جن میں عوام میں مقبولیت رکھنے والے رہنماﺅں کا راستہ روکا جانا ممکن نہیں۔ تاہم بہتر صورت یہی ہے کہ انتخابات کے معتبر ہونے کے بارے میں ذرا سے شائبے کی گنجائش بھی نہ چھوڑی جائے۔
ضمنی انتخابات کے التوا کے اعلان کے بعد پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کا پہلا ردعمل یہ تھا کہ وہ بیورو کریسی کی کسی سازش کی بو سونگھ رہے ہیں۔ انہوں نے الیکشن کمیشن کی طرف سے بتائی گئی وجہ کو غیرتسلی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ وزیر اعظم کو اس فیصلے پر اپنی پارٹی کے تحفظات سے آگاہ کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس فیصلے کے پس پردہ حقیقی اسباب جاننا چاہتے ہیں۔ وزیر قانون فاروق نائیک کا بھی کہنا تھا کہ چیف الیکشن کمشنر کو اپنے اس فیصلے کے بارے میں وضاحت کرنی چاہئے۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف کے خیال میں مذکورہ فیصلے کے پیچھے ایوان صدر کا کردار کارفرما ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کے ترجمان صدیق الفاروق کا کہنا تھا کہ انتخابی التوا کی وجہ امن و امان کی خرابی بتائی گئی ہے جو جنوری اور فروری کی صورت حال کے مقابلے میں اس وقت سوگنا بہتر ہے۔ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی خالی ہونے والی نشستوں کے ضمنی انتخابات کے لئے پہلے 3جون کی تاریخ مقرر کی گئی تھی۔ جسے 18جون تک کےلئے ملتوی کردیا تھا۔ نئے فیصلے کے تحت اب یہ انتخابات 18اگست کو منعقد ہونے ہیں۔ تاہم قانونی ماہرین اس التوا کے حوالے سے تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل (4)224 کے تحت قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست خالی ہونے کے 60دن کے اندر ضمنی انتخابات کرائے جانے چاہئیں۔ اس مدت کے گزرنے کے بعد انتخابات کرانا غیرآئینی ہوگا۔ بعض دوسرے ماہرین کے خیال میں الیکشن کمیشن انتخابات کی خود ہی تاریخ مقرر کرتا اور خود ہی اس کے التوا کا فیصلہ کرتا ہے۔ حکومت یا عدلیہ کے پاس الیکشن کمیشن کو ریگولیٹ کرنے، مانیٹر کرنے یا ایڈوائس دینے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ ایک نقطہ نظر کے مطابق کسی مجبوری کی وجہ سے انتخابات کا التوا ناگزیر ہوجائے تب بھی آئین کی خلاف ورزی سے گریز کیا جانا چاہئے۔ ایک قانونی حلقے کا کہنا ہے کہ کسی ہنگامی صورت حال ، سیاسی پارٹیوں کی درخواست یا غیرمعمولی حالات میں انتخابات ملتوی کئے جاسکتے ہیں لیکن الیکشن کمیشن اپنی مرضی سے ایسا نہیں کرسکتا۔ آئینی شقوں کی اور بھی متعدد وضاحتیں سامنے آسکتی ہیں مگر اصل بات یہ ہے کہ الیکشن کمیشن نے 18فروری کو پرامن اور شفاف انتخابات منعقد کراکر انتخابی عمل پر جو اعتبار و اعتماد قائم کیا ہے، اسے برقرار رہنا چاہئے۔ صوبہ سرحد میں امن و امان کی صورت حال اور وفاق یا صوبوں میں بجٹ اجلاسوں کو ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کا جو جواز ٹھہرایا گیا ہے اس سے حکومت میں شامل جماعتوں کو اتفاق ہے نہ اپوزیشن کی طرف سے اس کو درست قرار دیا گیا ہے۔ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ان انتخابات کے التوا پر عدالت میں جائے گی تو ہم انکے ساتھ ہونگے۔ خود الیکشن کمیشن نے بھی واضح کیا ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں متفقہ ریفرنس بھیجیں تو ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی جاسکتی ہے۔ جہاں تک سیاسی رہنماﺅں کے اب تک سامنے آنے والے بیانات کا تعلق ہے، ان سے یہ اتفاق رائے واضح ہوتا ہے کہ ضمنی انتخابات ملتوی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن کو اس معاملے میں فوری طور پر سیاسی جماعتوں کا کوئی مشترکہ اجلاس بلاکر باہمی مشاورت سے حتمی فیصلہ کرنا چاہئے۔ بہتر اور مناسب بات یہی ہے کہ دو ماہ کے مزید التوا کے ذریعے ایسی صورت حال پیدا نہ کی جائے جس سے ایک نئی آئینی و قانونی بحث ملک کے سیاسی افق پر چھا جائے۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply