Aug
25
|
Click here to View Printed Statement
Click here to View Printed Statement
روزہ کھلنے میں ابھی چالیس منٹ باقی ہیں لیکن مسجد نبوی کے ہر حصے میں نمازی افطار کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ ہر شخص اپنے ساتھ کچھ نہ کچھ افطاری لا رہا ہے جسے دروازوں پر کھڑے ہوئے دربان چیک کرتے ہیں۔کھجوریں‘قہوہ‘جوس کے ڈبے اندر لانے کی اجازت ہے۔سموسوں اور پکوڑوں کی ممانعت ہے۔ یہ پابندی اس لئے عائد ہے کہ مسجد میں گندگی نہ پھیلے۔ تھرموس میں اگر قہوہ ہے تو آپ اسے لے جاسکتے ہیں لیکن دودھ والی چائے پر دربان اعتراض کرتے ہیں۔
لوگ صفوں پر پتلی پلاسٹک بچھا لیتے ہیں تاکہ کھانے پینے کی چیزوں سے قالین خراب نہ ہوں۔ میں مسجد نبوی کے ایک دروازے پر کھڑا یہ منظر دیکھ رہا ہوں۔ اس دوران میری نظر اچانک مسجد نبوی کے باہر کے فرش کی طرف اٹھتی ہے تو کیا دیکھتا ہوں کہ جنت البقیع قبرستان والے حصے میں جو دکانیں ہیں ان کے دکاندار پلاسٹک کے بڑے بڑے رول کھول کر اسے سنگ مرمر کے فرش پر بچھا رہے ہیں بالکل ایسا ہی منظر ہے جیسے گھریلو دعوتوں میں ہوتا ہے کہ لوگ سفید چاندنی پر دسترخوان والا کپڑا پھیلا دیتے ہیں تاکہ سفید چاندنی پر کوئی داغ نہ پڑے۔ادھر پلاسٹ بچھی ادھر ایک صاحب ان پر کھجوروں کے پیکٹ ترتیب سے رکھنے لگے ایک دوسرے صاحب آئے انہوں نے پلاسٹک پر ایک ایک روٹی رکھنی شروع کردی۔ سامنے والی دکان سے ایک صاحب کئی کارٹن ایک ہاتھ گاڑی میں لے کر آئے اور انہوں نے ہر روٹی کے ساتھ دہی کا ایک ڈبہ رکھنا شروع کردیا۔ دوسری طرف پلاسٹک بچھانے والے باہر کے مختلف حصوں میں اپنا کام کر رہے ہیں۔ مسجد نبوی کے باہر کھڑا حیران ہورہا ہوں کہ افطاری کا اہتمام تو ہورہا ہے لیکن روزہ دار کہاں ہیں۔ کیا دیکھتا ہوں کہ لوگ مختلف اطراف سے آنے لگے اور فرش پر بچھے ہوئے دسترخوانوں پر بیٹھنا شروع کردیا۔ ایک جانب کا حصہ خواتین نے سنبھال لیا ہے ۔ جیسے جیسے افطاری کا وقت قریب آرہا ہے لوگ بھی دسترخوانوں پر بیٹھتے جارہے ہیں۔مختلف لوگ تھیلوں میں‘ڈبوں میں اور ٹوکریوں میں کھانے پینے کی مختلف چیزیں لے کر آرہے ہیں اور روزہ داروں کے سامنے رکھتے جارہے ہیں ۔ یہ وہ حضرات ہیں جو ثواب کی خاطر روزہ داروں کو فی سبیل اللہ افطاری پیش کررہے ہیں۔ میں خاموش کھڑا لوگوں کے اس ایمانی جذبے کو دیکھ رہا ہوں کہ کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ مسجد نبوی میں روزہ کھولنے والوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ایک صاحب نے میرے ہاتھ میں کھجوروں کے دو چھوٹے پیکٹ اور جوس کا ایک ڈبہ تھما دیا۔ میںنے کچھ کہنا چاہا تو وہ افطار افطار کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ روزہ کھلنے میں اب صرف دس منٹ باقی رہ گئے ہیں میرا ارادہ مسجد کے اندر روزہ کھولنے کا تھا لیکن باہر کا منظر اخوت‘ بھائی چارہ سخاوت اور اسلامی اقدار کا ایسا روح پرور نظارہ پیش کررہا تھا کہ میں نے بھی باہر بچھی ہوئی پلاسٹک پر عوامی انداز میں روزہ افطار کرنے کا فیصلہ کیا۔قریب ہی بچھی ہوئی پلاسٹک پر میں بیٹھا ہی تھا کہ سامنے والی صفوں پر ایک ہنگامہ برپا ہوگیا جسے دیکھ کر میں اپنی سنجیدگی برقرار نہ رکھ سکا اور بے اختیار ہنسی چھوٹ گئی۔ ہوا یہ کہ کوئی صاحب جوس کے ٹین والے ڈبے کئی کارٹنز میں لے کر آئے اور لوگوں میں بانٹنے کی بجائے انہوں نے یہ کارٹنز ایک خالی جگہ پر رکھ دیئے تاکہ لوگ اپنی خود پسند کے جوس کا ڈبہ اٹھا لیں۔ ان کا فیصلہ تو مناسب تھا لیکن لوگ ان ڈبوں پر اس طرح جھپٹے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ان ڈبوں کے حصول کے لئے جم غفیر جمع ہوگیا اور ایسی چھینا چھپٹی ہوئی کہ تو یہ ہی بھلی۔ کسی کے ہاتھ ایک ڈبہ آیا اور کوئی دو دو لے کر چلتا بنا۔ تین منٹ کے بعد ایک صاحب شربت کی بھری ہوئی بالٹی لے کر آئے اور کاغذ کے گلاسوں میں شربت بانٹنا شروع کردیا۔ غرض روزہ افطار سے دو تین منٹ پہلے تک افطاری بانٹنے کا سلسلہ جاری رہا۔ جو لوگ باہر روزہ کھولنے کی بجائے اندر مسجد میں جارہا تھے کہ انہیں صفوں میں بیٹھے ہوئے افراد چاہے وہ عرب ہوں ‘ایرانی ہوں‘سوڈانی ہوں‘یمنی ہوں‘ پاکستانی یا بھارتی ہوں بڑی محبت سے آواز دے کر اپنے پاس روزہ کھولنے کی دعوت دے رہے تھے۔ اس قسم کے ایمانی مناظر خانہ کعبہ میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔افطاری کی چیکنگ کا یہاں بھی وہی نظام ہے جو مسجد نبوی میں ہے۔موذن کی آواز کے ساتھ ہی گولے بھی چھوڑے جاتے ہیں۔ اذان کے بعد تقریباً پندرہ منٹ کا وقفہ دیا جاتا ہے۔ میں نے اندازہ لگایا ہے کہ اس وقفہ میں روزہ دار افطاری کے ساتھ ساتھ اگر کھانا بھی کھانا چاہیں تو آسانی سے کھا سکتے ہیں۔ سب سے حیرت انگیز چیز میں نے مسجد نبوی اور حرم شریف میں یہ دیکھتی کہ لاکھوں افراد افطاری کے بعد ان ہی پندرہ منٹ میں صفوں کی صفائی بھی کر لیتے ہیں صفوں پر بچھی ہوئی پلاسٹک میں بچی ہوئی چیزیں لپیٹ کر قریبی پڑے ہوئے ڈرمز میں ڈال دیتے ہیں یا اپنے پاس رکھ لیتے ہیں تاکہ نماز کے بعد باہر جاتے ہوئے ان چیزوں کو ڈرمز میںڈال دیں۔ صفائی کا عمل روزہ داروں اور خدمت پر مامور افراد کی جانب سے اس تیز رفتاری کے ساتھ ہوتا ہے کہ یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہاں کچھ دیر پہلے لاکھوں افراد کھا پی رہے تھے۔میں نے اس بات پر بہت غور کیا کہ اگر عام حالات میں کسی دعوت میں صرف ایک ہزار افراد کے کھانے کے بعد صفائی کا عمل شروع کیا جائے تو مکمل صفائی کے لئے کافی وقت درکار ہوگا مگر یہ اللہ کی برکتیں ہیں کہ اذان اور نماز کے وقت کے وقفہ میں صرف پندرہ منٹ کے اندر مکمل صفائی کردی جاتی ہے۔روزہ افطار کرنے کے مناظر جہاں اسلامی روایات کی عکاسی کرتے ہیں وہاں ہمیں زندگی میں ڈسپلن ‘ بھائی چارہ اور محبت کا درس بھی دیتے ہیں گو ہمارے ہاں بھی یہ عمل جاری ہے لیکن ہمارے ہاں افطاری بھیجنے کا رواج مساجد میں ہے اور وہ بھی زیادہ تر جمعرات اورجمعہ کے روز افطاری بھیجی جاتی ہے۔کاش ہم بھی مسجد نبوی اور حرم شریف میں رائج اسلامی اقدار کو اپنے معاشرہ میں عام کریں اور مساجد میں افطاری بھیجنے کے ساتھ ساتھ اپنی گلی محلے اور علاقے کے غریب غربا افراد تک افطاری پہنچانے کی عادت کو اپنا کر لوگوں کی دعائیں بھی لیں اور ثواب دارین بھی حاصل کریں۔