Aug 30

Click here to View Printed Statement

یہ کیسی بدنصیبی ہے کہ تاریخ انسانی کا بدترین سیلاب بھی پاکستانی سیاستدانوں کو متحد نہیںکرسکا۔ یہ کیسی مٹی کے بنے ہوئے لوگ ہیں۔ انہیں انسانیت کا دکھ نہ سہی اپنے ووٹروں کا ہی احساس ہوجانا چاہیے تھا۔ منسٹر کالونی‘ ایم این اے ہاسٹلز اور پارلیمنٹ لاجز خالی ہوجانے چاہیں تھے ۔ اپنے حلقوں میں جا کر ہمدردی کے دو بول ہی بول دیتے۔ لوگ ان سے کھانے کوسونے کے نوالے اور رہنے کو محل تھوڑا ہی مانگ رہے ہیں۔

بھوکے ہیںان کی بھوک بانٹ لو‘کھلے آسمان تلے ان کی بے بسی میں حصے دار بن جاﺅ۔ کسی ڈوبتے بوڑھے کی طرف کوئی ہوا بھری ٹیوب پھینک کر اسے بچالو‘ ملیریا سے تڑپتے کسی معصوم کی پیشانی پرشفقت بھرا ہاتھ ہی رکھ دو۔ لیکن یہ کیسے عوامی نمائندے ہیں جو اپنی بڑی بڑی کوٹھیوں میں مرغن افطاریاں اڑانے میں مشغول ہیں۔ ان کی ایک ماہ کی تنخواہیں کاٹی گئیں اور ہر پارٹی کے رکن نے جا کر وزیراعظم سے شکوے کئے ”سائیں یہ تو ظلم ہوا“۔ وزیراعظم اور صدر اپنے وزراءاور مشیروں کو دھکے دے کر نکالتے ہیں کہ سیلاب زدہ علاقوں میں جاﺅ لیکن یہ عجیب مخلوق ہیں کہ راستے سے ہی بھاگ آتے ہیں۔ جو بہت متحرک ہیں وہ بھی زیادہ سے زیادہ کسی بند پر تھوڑی دیر ٹھہر کر تصویر بنواتے اور ثبوت کے طور پر یہ تصویر وزیراعظم کے پرسنل سٹاف کو پہنچا کر مطمئن ہوجاتے ہیں کہ ڈیوٹی ادا ہوگئی۔ چند ایک تین یا چار ایم این اے اور ایم پی اے کو چھوڑ کر باقی سب ہاتھ پہ ہاتھ دھر ے محومنتظرفردا بیٹھے ہیں۔”فوج ہے نا“ یہ ہے وہ مختصر سا جواب جو ہمارے سیاستدانوں کے لبوں پر اٹھکیلیاں کرتا سنائی دیتا ہے۔
افواج پاکستان کا کردار بلاشبہ قابل تعریف ہے۔اس بے رحم سیلاب سے لوگوں کے مال و جان کو بچانے کے لئے آرمی‘نیوی اور ایئرفورس کمال سرعت کے ساتھ تیز پانیوں میں اتری ہوئی ہے لیکن ہماری سیاسی قیادتوں کو احساس نہیں کہ افواج پاکستان کا بہت بڑا آپریشنل حصہ مختلف فوجی مہمات میں پھنسا ہوا ہے۔ مشرقی سرحدوں سے مکمل طور پر فوج کو واپس بلایا نہیںجاسکتا اور مغربی سرحدوں سے امریکہ اور طالبان ہمیں ہٹنے نہیں دے رہے۔ ایک طرف دو کروڑ سے زائد پاکستانی زندگی کی سانسیں بحال رکھنے کی کشمکش میںمبتلا ہیں اور دوسری جانب امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے ”ڈومور“ کی رٹ برقرار ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے سوائے زبانی جمع خرچ کے کچھ کرنے پر تیار نہیں”کرپشن“ کا بہانہ بنا کر مٹھی بھینچ لی ہے۔ جو کرپشن گزشتہ اڑھائی برس میں امریکیوں کو دکھائی نہیں دی وہ سیلاب میں اچانک نقاب اتار کر سامنے آگئی ہے۔ یو ایس ایڈ والے بھی اپنی مدد کو ”شفافیت“ سے مشروط کر رہے ہیں۔ افغانستان میں خود مالی کرپشن کے عالمی ریکارڈ کرنے والے امریکی اداروں کو شرم تک نہیں آتی۔ ہمارے سیاستدان بغلیں بجا رہے ہیں ”واہ جی واہ۔زرداری کی وجہ سے امداد نہیں مل رہی۔دنیا کو اعتبارہی نہیں“۔ پھرکس پر اعتبار ہے؟نوازشریف کے قرض اتارو ملک سنوارو پروگرام پر اعتبار ہے ؟ ایم کیو ایم کے مبینہ بھتہ خوروں پر اعتبار ہے؟ جمائما خان سے رقم ہتھیا کر سینکڑوں ایکڑ اراضی پر فارم ہاﺅس بنا لینے والے شخص پراعتبار ہے؟ ڈیزل چوری کرنے والے مولاﺅں پر اعتماد ہے؟کس پر اعتبار ہے؟
افسوس کہ یہ وقت باہمی انتشار کا نہیں اتحاد و یکجہتی کاہے۔ تصور کریں اس بدنصیب باپ کا جس کا گھر سیلاب میں بہہ گیا ہے اور وہ اپنی جوان بیٹیوں کو ہجوم سے چھپاتا پھرتا ہے لیکن چھت ہے نہ دیوار۔خوراک کے لئے ٹرک کے پیچھے بھاگ رہا ہے‘ صاف پانی کی بوندوں کو نگاہیں ترس گئیں‘بیٹی کے پاس بدلنے کو کپڑے تک نہیں‘ حبس بدبو اور بے یقینی…. سیاستدانو! خدارا اپنی کچھاروں سے باہر نکلو‘ بڑے بڑے محلات میں ان پردہ دار گھرانوں کو چند دن مہمان ہی رکھ لو۔ یا ان کے ملیا میٹ ہوجانے والے دیہاتوں اور شہروں کے قریب ٹینٹ ویلج‘کوئی سایہ ‘کوئی سائبان ‘کچھ تو کرو۔ فوج کو پھنسانے کی کوشش کرو گے تو خود بھی گردنوں تک دھنس جاﺅ گے۔ فوج کو پکارنے اور دھتکارنے والے دونوں گروہ انجانے میں اپنی سیاسی موت کو دعوت دے رہے ہیں۔اب کی بار فوج آئی تو نائن زیرو بچے گا نہ رائے ونڈ کا محل‘منصورہ محفوظ رہے گا نہ بلاول ہاﺅس۔ فضل الرحمن کا جبہ ہوگا نہ سرخ پوش پختون…. بس فوج ہوگی اور صرف فوج!
ہمارے ٹی وی اینکر اپنی بچگانہ حرکتوں اور طفلانہ شرارتوں سے ابھی تک باز نہیں آرہے۔وہ الطاف حسین کے بیان کو لیکر چائے کی پیالی میں طوفان اٹھا رہے ہیں اور سیاستدان جنہیں اپنے عقل وشعور پر بہت ناز ہے وہ سدھائے ہوئے شکار کی طرح ان پروگراموں میںشریک ہورہے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ایک اجتماعی شعور پیدا کیا جاتا۔قوم کے اندر خودی اور خودداری کی روح پھونکی جاتی لیکن عملاً سیلاب زدگان کی مظلومیت اور حکومت کی غیر مقبولیت کو ایک دوسرے سے گتھم گھتا کراکے ٹی وی چینلز روزانہ تماشا لگاتے ہیں۔ میر میراثی اور پیشہ ور نوحہ خواں سورج ڈھلتے ہی ٹی وی سکرینوں پر قابض ہو کر قوم کے مورال کو سیلاب میں بہانے کی واردات کرتے ہیں….!
تمہارے اندر انتشار ہے لیکن سیلاب زدگان یکسو ہیں کہ جب انہیں مدد کی ضرورت ہے اس وقت میڈیا اور سیاستدان ان کی عزتیں اچھالنے اور بربادیاں”انجوائے“ کرنے میں مشغول ہیں۔!سنو‘سنو قرآن کی آواز سنو۔ اللہ تعالیٰ نے آپ جیسے انسانوںپر اپنے احسانات گنوانے کے بعد فرمایا ہے‘”تم لوگ گھاٹی عبور نہیں کرسکے اور گھاٹی کیا ہے‘ نجات دلانا اور قحط کے دنوں میںقرابت دار یتیم ‘خاک گزیدہ محتاج کو کھانا کھلانا“۔

written by DrMurtazaMughal@


Leave a Reply