Sep
18
|
Click here to View Printed Statement
زلزلہ کے دوران حکومت حسب معمول غافل تھی لیکن عوام کا جذبہ دیدنی تھا۔پورے ملک سے زلزلہ زدہ علاقوں کی طرف امدادی سامان کے ٹرک قافلوں کی صورت میں رواں دواں دکھائی دیتے تھے۔ ایک مرحلہ ایسا آیا کہ لاہور سے ایبٹ آباد تک جی ٹی روڈ پر امدادی ٹرکوں کی لمبی قطاریں لگ گئیں تھیں اور کراچی سے مظفرآباد تک زلزلہ متاثرین کے لئے ”لائف لائن“ قائم ہوگئی تھی۔اندرون ملک سے آنے والے امدادی سامان کی اس قدر بہتات تھی کہ انتظامیہ کو ٹریفک کا انتظام سنبھالنامشکل ہوگیا تھا۔سڑکوں کے دونوں جانب خوراک‘ پانی اور خیموں کے ڈھیر لگ گئے تھے اور حکومت کو اپیل کرنا پڑی تھی
کہ ترسیل کی رفتار سست کردی جائے تاکہ پہلے والا سامان متاثرین استعمال کر سکےں۔یہ 2005ءتھا۔ کیا پانچ برس گزرنے کے بعد پاکستانی قوم کی کیمسٹری بدل گئی ہے یا تعداد اور استعداد کم ہوگئی ہے۔آخر کیا ہوا کہ آج دو ماہ گزرنے کے بعد بھی سیلابی متاثرین بے یارومددگار پڑے ہیں اور ان کی ضرورتیں کہیں پوری ہوتی دکھائی نہیں دیتیں۔ ماہ صیام کا مقدس مہینہ ہو‘پاکستان کا پانچواں حصہ پانی میں ڈوبا ہوااور لاہور‘ کراچی اور فیصل آباد جیسے شہروں سے امدادی قافلے نکلنے کی بجائے اکا دکا شہ زور سامان اٹھائے متاثرہ علاقوں کی طرف رینگتے دکھائی دے رہے تھے۔ ؟
کیا ہماری قوم زلزلہ میںتھک گئی؟ کیا پچھلے پانچ برس میں لوگوں نے کچھ بھی کمایا نہیں۔ کیا ایثار اور قربانی کا جذبہ ختم ہوگیا۔ کیا انہیں سیلاب کی تباہ کاریوں سے آگاہی نہیں ہوئی۔ کیا ذرائع ابلاغ نے خبریں نہیں چھاپیں۔آخر کیا سبب ہے کہ ایک بہادر قوم‘ گر کر اٹھ کھڑا ہونے والے عوام اور تباہیوں سے ترقی کے راستے کشید کر لینے والے پاکستانی اس قدر لاتعلق ‘ بے حس اور پتھر دل کیوں ہوگئے ہیں؟۔
باقی وجوہات کا علم نہیں لیکن ہر وقت لوگوں کے اندر رہنے اور ان کی باتیں سننے کا موقع ملتا ہے اور گلی محلے سے لیکر دفتر اور محلات تک کے لوگوں سے رابطے کی سہولت میسر ہے اس لئے دعویٰ سے کہہ رہا ہوں کہ اب کی بار پوری پاکستانی قوم کے ساتھ ایک بہت بڑا دھوکہ ہوا ہے۔ تیسری دنیا کی حکومتیں انیس بیس کے فرق سے کرپٹ ہی کہلاتی ہیں۔کوئی چھوٹا چور اور کوئی بڑا چور اس دنیا میں سب چور ہی چور! پہلی دنیا کی کرپشن ہمارے دائرہ اختیار میں نہیں آتی۔ غریب ممالک پر کرپشن کا ہلکا سا شائبہ بھی روشن حقیقت دکھائی دیتا ہے۔غریب کا کوئی بھروسہ نہیں کرتا۔ خصوصاً پاکستان میں پسندیدہ مشغلہ کرپشن کے الزامات ہیں چونکہ پی پی پی والے روپے کی چوری کرکے سو روپے کا شور مچانے میں ماہر ہیں۔ اس لئے وہ ٹین پرسنٹ اور ہنڈرڈ پرسنٹ جیسی پھبتیوں کی زد میں رہتے ہیں۔ ورنہ الآماشاءلااللہ باقی سیاسی پارٹیوں اور ان کے رہنماﺅں کی کرپشن شاید مقدار کے حساب سے کہیںزیادہ ہو۔ پی پی پی اور کرپشن کا رشتہ لازم و ملزوم بنا دیا ہے۔ اسی پروپیگنڈا کو ہمارے ذرائع ابلاغ خصوصاً ایک میڈیا گروپ نے خوب اچھالا۔ عین اس وقت جب قوم نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نبردآزما ہونے کی ہمت باندھی اسی وقت حکمرانوں کی کرپشن کاواویلا شروع کردیا گیا۔دینے والے ہاتھ جہاں تھے وہیں رُک گئے۔
”حکومت پر کوئی اعتبار نہیں کرتا۔دُنیا کو آصف زرداری پر اعتماد نہیں‘ ایوان اقتدار میںبیٹھے ایک منحوس شخص کی وجہ سے سیلاب آیاہے“۔ایسے ایسے تبصرے کئے گئے کہ بیرونی دُنیا بھی ہمارے میڈیا سے خوفزدہ ہو کر محتاط ہوگئی۔امدادی جہاز ایئرپورٹس پر رُک گئے۔ لوگ ایک نوالہ روٹی کے لئے پکارتے رہے اور ”پکار“ والے حکمرانوں کی کرپشن کے ڈھنڈورے پیٹتے رہے۔میاں نوازشریف بھی مخصوص میڈیا کے پھیلائے ہوئے جال میں آگئے۔ مخصوص میڈیا گروپس کا اپنا ایجنڈا تھا۔انہوں نے عوام کو متاثرین کی مدد پر اُبھارنے کی بجائے متاثرین کی بدحالی اور بے بسی کو خوب کیش کرایا اور جب لوہا پوری طرح گرم ہوگیا تو راتوں رات اپنی این جی اوز بنا ڈالیں۔ میڈیا نے مخیرحضرات اور ضرورت مند متاثرین کے درمیان ایک مصنوعی ”گیپ“ پیدا کیا۔ حکومت کو بے اعتبار ثابت کیا اور جب میدان پوری طرح خالی ہوگیا تو اپنے اینکرپرسنز کو ”لیڈرز“ کے طور پر پینٹ کرنا شروع کردیا۔
آج حالت یہ ہے کہ عمران خان اپنی شہرت کو سہارا دینے کے لئے ایک میڈیا گروپ کی گود میں جا بیٹھے ہیں۔ ایک ارب روپے جمع کرنے کا دعویٰ ہے لیکن کوئی نہیں جانتا کہ اس ایک ارب روپے میں اشتہارات پر کتنا خرچ آیا ہے؟ سوسائٹی کی انتظامیہ کی کتنی تنخواہیں نکالی گئی ہیں اور شوکت خانم کینسر ہسپتال کے گورننگ بورڈ کو کتنا حصہ جائے گا۔ حکومت اس قدر گندی ہوچکی ہے کہ وہ ان ٹی وی چینلز کا آڈٹ کرنے کی کوئی اخلاقی جرات ہی نہیں رکھتی۔ عوام اب صرف ٹی وی سکرین پر امدادی سامان آتے دیکھ رہی ہے‘ٹی وی اینکرز نے امداد کی وصولی کے لئے ذاتی اکاﺅنٹس نمبر دے دیئے ہیں۔ جوائنٹ ٹیلی تھون یعنی ایک ٹکٹ میں کئی کئی مزے ہو رہے ہیں۔ اس ”خدمت“ کے عوض میڈیا گروپس اقتدار میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔
خیرات کرنے والی قوم کو امدادی کاموں میں حصہ لینے سے بَددل کردیا گیا ہے۔ سترہ کروڑ لوگ اب انتظار کرتے ہیں کہ حکومت بیرونی ممالک سے کیا حاصل کرسکی ہے؟
لوگ سیلاب میںڈوبے‘ پانی سر سے گزرا ‘مال مویشی اور چھت لے گیا‘ بیماریاں اور بے روزگاری دے گیا۔ جب تک تصویر چھپنے کا اہتمام نہ ہو امداد مل نہیںسکتی اور تصویر چھاپنے کا اختیار صرف میڈیا کے پاس ہے! وہ آتے ہیں ‘روتی ماﺅں اور ننگے سر بہنوں کو قطار میں کھڑا کرکے فوٹیج بناتے ہیں اور ٹرک بھجوانے کی یقین دہانی کراکے اگلے کیمپ میں گھس جاتے ہیں۔
دیوار کیا گری میرے کچے مکان کی
لوگوں نے گھر کے صحن میں رستے بنا لئے