Oct
06
|
Click here to View Printed Statement
بات معمولی سی ہے۔دہلی میںمنعقدہ کامن ویلتھ گیمز میں پاکستانی دستے کی قیادت ایک کھلاڑی کر رہا تھا۔ سٹیج سے اس ویٹ لفٹر کھلاڑی کا بار بار نام بھی لیا جارہا تھا لیکن ٹی وی سکرین پر پاکستانی جھنڈا کھیل کے صوبائی وزیر نے تھام رکھا تھا۔سندھ سے تعلق رکھنے والے اس وزیر کو نمایاں ہونے کے شوق نے اس قدر دبوچ رکھا تھا کہ اس نے قائد کھلاڑی کو ایک مرحلہ پر آگے بڑھنے سے زبردستی روک دیا۔ ہزاروں لاکھوں ناظرین نے یہ منظر دیکھا۔ہوسکتا ہے
کہ ٹی وی چینلز نے کیمرہ ٹرک کے ذریعے ایسا منظرتخلیق کیا ہو جس سے وزیر موصوف کے ہاتھ میں جھنڈا دکھایا گیا ہو اور ہوا میںلہراتا ہوا ہاتھ ان کا نہ ہو بلکہ کوئی دستِ غیبی خود بخود نمودار ہوگیا ہو مرکز میں براجمان حکمران جماعت کو شک کا فائدہ دیا جانا چاہیے لیکن دستاویزی ریکارڈ سے بھی یہی حقیقت واضح ہوتی ہے کہ جناب وزیر موصوف نے طے شدہ پروگرام کے تحت اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا اور جو حق پوری دنیا کھلاڑیوں کو دیتی ہے وہ حق بھی پی پی پی کے وزیر اور صدر پاکستان کے قابل اعتماد آدمی نے اپنے نام کر لیا۔گو یہ مالی کرپشن نہیں ہے لیکن بہرحال اخلاقی کرپشن کی ایک قبیح صورت ضرور ہے۔ظاہر ہے وزیر کی اس حرکت سے ہمارے کھلاڑی بھی شرمندہ ہوئے ہوں گے اور ان کا مورال ایسے ہی ڈاﺅن ہوا ہوگا جس طرح جناب زرداری کے دوست اعجاز بٹ صاحب کی منہ زور خواہشوں کے سبب کرکٹ کے کھلاڑیوں کاجذبہ سرد ہوتا ہے۔
ایک اور معمولی سی بات یہ ہے کہ سیلاب کی تباہ کاریاں جب زوروں پر تھیں تو نیویارک سٹاک ایکسچینج نے ہمارے پاکستانی ہائی کمیشن کو اجازت دی کہ وہ مذکورہ سٹاک ایکسچینج کی ویب سائٹ پر سیلاب زدگان کے حالات دکھا کر فنڈز جمع کر لیں۔سٹاک کے ممبران منتظر تھے لیکن جب مقررہ وقت پر ویب سائٹ سامنے آئی تو وہاں سیلاب زدگان کی بجائے قیمتی سوٹوں میں ملبوس ہمارے سفیروں کی تصویریں جھلک رہی تھیں اور سیلاب کے حوالے سے کسی تصویر کا تصور تک نہ تھا۔ یہ بھی خود کو نمایاں کرنے کا ایک سنہری موقع تھا اور ہمارے سفیروں جن میں سے اکثر این۔آر۔او زدہ ہیں اور بڑے صاحب کی قربتیں”انجوائے“ کرتے ہیں نے اپنی تشہیر کے لئے استعمال کیا۔آج تک دفتر خارجہ کی طرف سے اس ”اخلاقی کرپشن“ کی بھی کوئی وضاحت نہیں آسکی !
وزارتوںکاعالم ہی نرالا ہے۔آپ کسی منسٹر کے دفتر چلے جائیں وہاں گیٹ پر کھڑے چوکیدار سے لیکر وزارت کی کرسی تک ہر کوئی ”دیہاڑی“ لگانے میںمشغول ہے۔ خدا جانے اس قدر ہوشیار اور آزاد میڈیا کے ہوتے ہوئے ان بیچاروں کی کوئی دیہاڑی لگ بھی رہی ہے یا نہیں لیکن وزیراعظم ہاﺅس اورپریذیڈنٹ ہاﺅس سے پورے ملک میںمختلف محکموں کے سربراہوں کو دن میںکئی کئی ”اہم ترین کالیں“موصول ہورہی ہیں اور ہر کال کی تان اس پر ٹوٹتی ہے۔”یہ صدر صاحب کا حکم ہے۔ یہ وزیراعظم کا حکم ہے یہ کام ہوجانا چاہیے۔ اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی کے ایک ڈائریکٹر کو فون آگیا کہ ”یہ نوجوان بھجوا رہا ہوں‘اس کو سکالر شپ مل جاناچاہیے“۔ میں ایوان صدر سے بول رہا ہوں۔یہ صدر مملکت کا حکم ہے ۔”ڈائریکٹر نے ہمت کرکے کہہ دیا “۔ ”اگر صدر صاحب کا حکم ہے تو تحریری طور پر بھجوا دیجئے کیونکہ میرٹ پر یہ طالب علم سکالر شپ کا اہل نہیں ہے “۔”فون کو ہی تحریر سمجھئے“۔!جواب ملا اور فون بند ہوگیا۔
لوڈشیڈنگ پر اب غصہ نہیں صرف رونا آتا ہے ۔ بے بسی کی ایسی انتہا کسی دور میں بھی دکھائی نہیں دیتی۔ ضروری نہیں کہ ترقی پذیر ممالک میں بنیادی ضرورتیں ہر کسی کو میسر آئیںلیکن موجودہ حکومت کا مزاج ہی انوکھا ہے۔وہ جس قدر اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کرتی ہے اسی قدر یہ مسئلہ بگڑتا جارہا ہے۔ رینٹل پاور پراجیکٹس بھی لگ گئے ۔ امریکہ نے بھی مبینہ طور پر بھاری رقوم بھجوا دیں۔دبئی والوں نے بھی پلانٹ ولانٹ بھجوادیا۔لیکن بجلی ہے کہ آتی ہی نہیں ۔موسم سرما میں کھپت ویسے ہی نصف رہ جاتی ہے ۔ڈیم پانی سے لبالب بھرے ہوئے ہیں۔لیکن بجلی نہیں ہے۔ خیال تھا کہ بجلی شائد سستی ہونے کے سبب اخراجات پورے نہیں ہورہے۔اب کی بار جو بل آئے ہیں تولوگوں کے کان تک جلنے لگے ہیں۔ لیکن بل ہے بجلی نہیں ہے! وزیر لوڈشیڈنگ سے لیکر میٹر ریڈر تک سب دیہاڑیوں کے چکرمیں ہیں۔اہلیت اور صلاحیت کی جگہ لالچ ‘حرص اور ہوس نے لے لی ہے۔کوئی ایک بھی ایسا شخص نہیں جو معاملات سلجھانے کا حوصلہ رکھتا ہو!
بظاہر ڈالروں کی بارش ہے۔کیری لوگر بل ‘یو۔ایس۔ایڈ‘ سیلاب فنڈ‘دہشتگردی کیخلاف جنگ لڑنے کے الگ اور بے حساب ڈالرز ۔اخباروں‘بیانوں پر ڈالر ہی ڈالر ہیں۔لیکن یہ سارے ڈالرز جاکہاں رہے ہیں؟ کسی کو کچھ علم نہیں۔کوئی بتانے پر تیار نہیں کہ جب اتنے ڈالر آرہے ہیں تو پھر ہمارا بیچارہ روپیہ روز بروز نیچے کیوں کھسک رہاہے۔خاکم بدین سنتے ہیں کہ آئندہ بجٹ سے پہلے پہلے یہ منحوس ڈالر ہمارے لال رنگ کے ایک نوٹ کو روند چکا ہوگا!
یوں محسوس ہوتا ہے کہ ”گڈگورننس“ کے لئے باصلاحیت لوگوں کی جو تعداد انتہائی ضروری ہوتی ہے وہ بھی موجودہ سیٹ اپ میں دستیاب نہیں۔جب بگاڑ رہی ”گڈ گورننس“ کا نام ہو تو پھر اصلاح احوال کی امید کہاں سے ابھرے۔ پنجاب ہو یا خیبرپختونخواہ ہو ‘بلوچستان اور سندھ ہو یا مرکز …. ہر جگہ قحط الرجال ضربیں کھاتا دکھائی دیتا ہے۔جب اچھے لوگ ہی نہیں تو اچھائی کی توقع کیوں رکھیں!۔