Nov
13
|
Click here to View Printed Statement
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے آٹھ سالہ دور حکومت میںپاکستانی عوام نے جدید روشن خیالی کے نام پر بہت سے ذہنی اور روحانی تازیانے برداشت کئے- اس دور کے سات نکاتی ایجنڈے نے بہت سی امیدیں پیدا کردی تھیں اور بڑے بڑے کرپٹ لوگ ”نیب“ کے ذریعے شکنجے میں کسے بھی گئے ۔پھر یوں ہوا کہ سدا بہار سیاسی نوسربازوں نے چیف ایگزیکٹو کے گرد گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا اور چاپلوسی‘ ترغیب حرص وہوس کا ایسا شکنجہ کسا گیا کہ نہ کالا باغ ڈیم بن سکا‘نہ کشمیر مل سکا اور نہ ہی شفاف سیاسی کلچر نصیب ہوسکا۔کوئی جائز وجہ نہیں کہ مشرف کی یادآئے ‘لیکن پھر بھی مشرف کی یادکیوں آتی ہے؟
چینی (شوگر) ایک معمولی سا اشو ہے۔ یہ اسقدر غیر معمولی کیوں بن گیا ہے۔ چینی ہر گھر‘ ہر کچن اور ہر فرد کی ضرورت ہے۔ تھوڑی یا زیادہ ہر ذی روح کو یہ میٹھا اور دانے دار مواد اپنے پیٹ میں اتارنا پڑتا ہے۔یہ کہنا آسان ہے کہ چینی خوری ایک فضول خرچی ہے لیکن طبیب بتاتے ہیں اور راقم خود بھی شعبہ طب سے وابستہ ہے اور جانتا ہے کہ ہر روز ایک خاص مقدار میں چینی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔پھر یہ چینی کہاںچلی گئی۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور یہاں گنے کی فصل انتہا کی ہوتی ہے۔ چھ ماہ قبل خوشخبری تھی کہ ملک میںچینی کی بہتات ہے اور اس بہتات کے ہوتے ہوئے سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا کہ کوئی کمی واقع ہوجائے۔ پھر دیکھتی آنکھوں کے سامنے چینی کی قیمت بڑھنا شروع ہوگئی۔ 35روپے سے پچاس روپے‘ پھر پچاس سے ساٹھ اور سو روپے اور یہی چینی ڈیڑھ سو روپے تک فروخت ہوئی صرف ایک ماہ کے اندر چینی کی قیمت چھلانگیں لگاتی اور قلانچیں بھرتی دنیا بھرمیں بلند ترین سطح کو چھونے لگی۔
ملک میں منتخب جمہوری حکومت ہے۔ صدر پاکستان بھی منتخب‘وزیراعظم متفقہ طور پر منتخب‘ وزیراعلیٰ پنجاب جو کہ خادم اعلیٰ کا لقب پسند فرماتے ہیں‘سستی روٹی سکیم سے شہرت پانے والے آہنی ہاتھوں والے شہباز شریف۔ اسمبلیوں کے اجلاس جاری رہے۔ پٹرول ‘ڈیزل کی قیمتیں بڑھیں۔ (ن) لیگ نے قرارداد جمع کرائی۔ اخبارات میں قائد حزب اختلاف نے گرما گرم بیانات داغے لیکن نتیجہ صفر۔ یوں محسوس ہوا کہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھے سب ”خادمین عوام“ دراصل چینی چور ہیں۔ کسی کے بھائی کو لائسنس جاری کیا گیا۔ کسی کے انکل ٹھیکہ لے اڑے۔مل مالکان کا تعلق پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں سے ہے۔ سب وہی چینی چور ہیں جنہوںنے پرویز مشرف کے آخری دنوں میںعبوری حکومت کے دوران عوام کی جیبیں کاٹی تھیں سب ایک دوسرے کے رشتہ دار‘ سب ایک دوسرے کے حصہ دار‘ بظاہر پارٹیاں مختلف‘ اندرونُ خانہ ایک…. قبیلہ اور کرتوت…. ایک جیسے!
پنجاب کے حکمران چینی کراچی سے خریدیں گے۔پنجاب کی ملوں‘ ذخیرہ گھروں اور سرکاری سٹوروں پر پڑی چینی کہاں گئی۔ ایک شیطانی گٹھ جوڑ شروع ہوگیا ہے۔چینی کی قیمت ڈیڑھ سو تک لے جا کر سو روپے تک لانے کی سازش تیار۔
بیرسٹر محمد علی سیف انتھک سیاسی کارکن ہیں۔سیاست میں نووارد نہیں بلکہ ”رہنماساز“ قسم کے خاموش سپاہی ہیں۔ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور وضع دار نوجوان اصولی سیاست کے دامن میں جڑے چمکدار موتی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ جناب راشد قریشی ‘جناب ڈاکٹر امجد اور مشرف کے دوسرے ساتھی خاردار سیاست میں فی الحال کانٹے چننے کے لئے ہمہ تن مصروف ہیں ۔ان کی محنت اپنی جگہ۔یہ ان کی دھڑے بندی ہے۔ تمام تر مخالفتوں‘ آزمائشوں اور طعنوں کے باوجود وہ پرویز مشرف کے نڈر وکیل ہیں لیکن سچ یہ ہے کہ اپنا دل پرویزمشرف کے بارے میں ابھی تک نرم نہیںہے۔
مشرف کو یاد کرنے کی کوئی جائز وجہ نہیں‘اگر دماغ سے سوچوں تو جناب مشرف کی سوچ سے کوسوں دور ہوں لیکن اگر غریب آدمی کی صدا سنوں تو پھر مشرف کا دور یاد آتا ہے اور یہ تسلیم کئے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ کم از کم اس ”فوجی آمر“ کے دور میں غریبوں کویوں مٹیّ کھانے پر مجبور نہیں کیا گیا تھا۔ زندگی اس طرح کبھی تلخ نہیں ہوتی تھی اور والدین کو بچوں کے سامنے تھوڑے سے میٹھے کے لئے ہر روز شرمندہ نہیں ہونا پڑا تھا۔ کاش کہ مشرف چوہدریوں کے ہتھے نہ چڑھتے تو شایدآج بھی حکمران ہوتے!