Nov
16
|
Click here to View Printed Statements
اُمید کی جب موت ہوتی ہے تو وہ حسرت کا روپ دھار لیتی ہے۔پاکستان کے متوسط طبقہ کی اُمیدیں روز ٹوٹتی ہیں اور یوں سفید پوشوں کے اس کنبے کے دامن میں حسرتوں کی لاشیں اوپر نیچے ڈھیر ہوتی رہتی ہیں۔پٹرول ‘ڈیزل کی قیمتیںبڑھیں‘اپوزیشن نے بھڑکیں ماریں ڈیسک بجائے گئے لیکن پھر ایک مجرمانہ خاموشی چھا گئی۔ چھوٹو پہلے دس پندرہ روپے دے کر ورکشاپ پہنچ جاتا تھا اب ویگنوں کے کرائے بڑھ گئے ہیں وہ سائیکل لے نہیںسکتا‘عام سا سائیکل بھی اب ساڑھے چھ ہزار روپے میںملتا ہے۔
اگر وہ دو ماہ کی بخشش نما تنخواہ جمع کرے تو سائیکل لے لے گا لیکن شیخ صاحب کو ماں کرایہ کہاں سے دے گی۔ پوری حکومت سستی چینی فراہم کرنے میں بظاہر سرتوڑ کوشش میں مصروف ہے لیکن چینی چور عید کی خوشیاں منا رہے ہیں۔انہیں کوئی فکر ہی نہیں۔ گوداموں پر چھائے پڑ رہے ہیں اور چھاپہ مارنے والوں کو سمجھا دیا گیا ہے کہ چھاپے کو خالص سیاسی قسم کا ہونا چاہیے نہ کہ انتظامی نوعیت کا ۔ اصلاح شدہ جنرل سیلز ٹیکس کے بارے میں فرمایا وزیراعظم نے کہ ٹیکس کے نفاذ سے چیزیں سستی ہوں گی اور مہنگائی کنٹرول ہوگی۔بے وقوف بنانے کے چند سکہ بند طریقے ہر دور حکومت میں اپنائے جاتے ہیں لیکن اس قدر دن دیہاڑے اُلّو بناﺅ مہم اسی حکومت کا حسن ہے۔ ایک نرگس ہیں جو خاتون اول تو نہیں لیکن اختیارات کے حساب سے ان کی حیثیت ڈپٹی وزیراعظم کے برابر برابر ہے۔ہر کامیاب مرد کے پیچھے عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہ خاتون بھی انہی ”مردساز“خواتین میں شامل ہیں۔ ہر بڑے عہدے اور منصب پر محترمہ نرگس سیٹھی کے عزیز واقارب ہی دکھائی دے رہے ہیں۔ اگر وہ چاہیں تو گیلانی صاحب کو عوام خصوصاً حسرتوں میںدبے متوسط طبقہ کی حالتِ زار کے بارے میں آگاہ کریں اور پوچھ لیںکہ آقا جی ٹیکس کے نفاذ اور تنخواہ دار طبقہ پر فلڈ ٹیکس لگانے سے مہنگائی کس طرح کم ہوگی؟۔
بکروںکی مائیں اس بار مطمئن ہیںکہ خریداروں کی جیبیںخالی ہیں۔ رقوم ہوں گی تو چھریاں چلیں گی اور اس بار قربانیوں کی شرح انتہائی کم ہے۔ لوگ دال روٹی کے فرض سے نکلیں گے تو سنت ابراہمی ادا کرپائیں گے ۔
بھارت کی خوشحالی کا ایک سبب بھارتی حکمرانوں کی وہ اقتصادی پالیسیاں ہیں جن کے نتیجے میں سوا ارب آبادی کے اس ملک میں متوسط طبقہ کی تعداد روز بروز بڑھ رہی ہے اور تقریباً آبادی کا ساٹھ ستر فیصد حصہ خوشحال ہوگیا ہے۔ ہمارے ہاں متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والا وزیر خزانہ اور غریب طبقات کی نمائندہ جماعت اقتدار میں ہونے کے باوجود مڈل کلاس کا حجم روز بروز کم ہو کر خط غربت کے اس پارانتہائی غربت کی دلدل میں دھنسے جارہاہے پھر بھی حکمران طبقوں کا دعویٰ ہے کہ عوام خوشحال ہورہے ہیں ۔
وزیراعظم فرماتے ہیں کہ مجھے متاثرین سیلاب کے لئے 160ارب روپے چاہیں کہاں سے لاﺅں؟ امریکہ سے….سادہ سا جواب ہے اور اگر امریکہ یہ رقم نہیںدے سکتا تو اس کے لئے پاکستانیوں کو مارنے کا کاروبار بند کردیں۔غربت جانیں اور ہم جانیں….کم از کم خودی اور خودداری تو بچی رہے گی۔ اب تو دنیا ہے نہ دین۔
میرے علاقے گلستان کالونی راولپنڈی کی معروف سماجی شخصیت جناب حاجی عبدالحمید علاقے کے غرباءمیں کھانا پکا کر تقسیم کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل عرصہ دراز سے جاری ہے۔ ان کے مقابلے میں کہیں بڑے بڑے امراءیہاں رہتے ہیں لیکن مجال ہے جو کبھی رک کر کسی ضرورتمند کو حوصلہ ہی دیا ہو۔میں خود اپنے محدود وسائل کے باوجود فری ڈسپنسری چلاتا ہوں۔ اقتصادی حالات کی تنگی یہ کہ ڈسپنسری پر تشریف لانے والے مریضوں کی حالت زار سنتا ہوں تو ہولناک انقلاب کی پرچھائیاں ذہن و قلب کو جکڑ لیتی ہیں۔اے خدا! کیا ہونے والا ہے‘قائداعظم ؒ کے اس ملک کے ساتھ ؟ ‘ مٹی اپنی‘ پانی اپنا‘ہوا موجود…. پھر بھوک کیوں‘پھر افلاس کیوں…. ایک طبقہ کھا کھا کر مریض بن رہا ہے ۔دولت کے انبار نیچے دبا جارہاہے اور دوسراطبقہ یعنی عوام کا جم غفیر روح اورجسم کے رشتے برقرار رکھنے کے لئے ہاتھ پاﺅں مار رہا ہے۔ انجام کیا ہوگا۔
عید پر ایسے ایسے حسرتناک مناظر سامنے آتے ہیں کہ روح کانپ اٹھتی ہے ”سورة التکاثر میںفرمایا گیا ہے” مال و دولت کی چاہت نے تمہیں غافل کردیا‘یہاں تک کہ تم قبرستان جاپہنچے“
اے دولت مندو!جب عید پراُمید ٹوٹے گی تو پھر غریب تمہارا گریبان پکڑیں گے۔ ایک آگ قیامت کو ہوگئی لیکن اس سے پہلے پھیلنے والی آگ سے کس طرح بچو گے؟