Nov 27

Click here to View Printed Statement

یوں تو عالمی کساد بازاری نے پوری دنیا کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ مالی لحاظ سے مضبوط ممالک اس مالیاتی سونامی کے مزید جھٹکے بھی برداشت کرسکتے ہیں جبکہ کمزور اور پسماندہ ممالک پہلے جھٹکے کے ساتھ ہی مالی طور پر منہدم ہوگئے ہیں۔امریکہ جو کہ دوبرس قبل تک مالی لحاظ سے دنیا کی واحد سپرپاور تھا آج اس کی حالت یہ ہے کہ اربوں ڈالرز قربان کرنے کے باوجود وہ اپنے قومی اداروں اور نجی کارپوریشنوں کو دیوالیہ ہونے سے بچا نہیں پا رہا۔

سٹی بینک نے دنیا بھر میں ایک سوسات ممالک کے اندر کام کرنے والے چار لاکھ ملازمین میں سے اب تک پچھتر ہزارملازمین کو فارغ کردیا ہے اور مزید ہزاروں ملازمین کی فراغت کا منصوبہ بن چکا ہے۔ خیال کیا جارہاہے کہ اگر دنیا کا یہ سب سے بڑا امریکی بینک اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا تو اس سے وابستہ بہت سے ادارے اور کاروبار ڈوب جائیں گے اور بےروزگاری اور غربت کا سیلاب ملکوں کو بہالے جائے گا۔ہوسکتا ہے کہ امریکہ اپنے ریزروز کا مزید استعمال کرکے برس دو برس تک اپنی ڈگمگاتی اقتصادی ناﺅ کو ڈوبنے سے بچالے لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام چند سالوں کے اندر اپنی آخری ہچکی لینے کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
دنیا میں جاری موجودہ اقتصادی بحران کا ہر وہ ملک اور معیشت شکار بنی ہے جس کا انحصار سرمایہ دارانہ نظام معیشت پر تھا۔ چونکہ پاکستان کی چھوٹی سی مالیاتی حیثیت کا مکمل انحصار ہی امریکہ‘یورپ اور اسی طرز کی دیگر اقتصادی طاقتوں پر تھا اس لئے معمولی سے جھٹکے نے ہی پاکستان کو ”ڈیفالٹ“ اور ”ناکام“ کی حدوں کو چھونے پر مجبور کردیاہے۔ اگر حکومت سمجھتی ہے کہ اس نے آئی۔ایم ۔ ایف سے قرضہ لیکر کوئی بڑی فتح حاصل کر لی ہے اور پاکستان کو اقتصادی طور پر حالت نزع سے باہر نکال لیا ہے تو یہ ایک غافلانہ طرز فکر ہے۔ہم جس شاخ پر بسیرا کر رہے ہیں وہ خود ٹوٹنے والی ہے!۔
امریکہ میں ریسرچ پر بہت زور دیا جاتا ہے اور امریکہ اپنی قومی ضرورتوں کے مطابق تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کی یہی خوبی اسے اپنے اتحادی اور حاشیہ نشین ممالک کی طرف سے بعض اوقات”بے وفا “ہونے کا طعنہ سننے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔بہرحال امریکہ کے اندر ”نج کاری“ اور ”فری اکانومی“ کے متبادل طریقوں پر غور شروع ہوگیا ہے اور بہت ممکن ہے کہ مستقبل میں خود امریکہ دنیا کا سب سے بڑا سوشلسٹ ملک بن کر ابھرے۔
عالمی اقتصادی بحران کا شکار ہونے سے صر ف وہ ممالک بچ سکے ہیں جہاں ”نیشنل لائزیشن“ اور کنٹرولڈ اکانومی اپنے ٹھیک تصورات کے ساتھ اب بھی کام کر رہی ہے۔ چین کی مثال ہمارے سامنے ہے آج چین کے پاس ڈیڑھ ٹریلین ڈالرز کے زرمبادلہ کے ذخائر ہیں۔ امریکہ چین کا مقروض ہوچکا ہے۔اور واجب الادا قرضوں کی کل رقم کا تیسرا حصہ چین کا قرضہ ہے۔ چین کو معمولی سا جھٹکا ضرور لگا ہے اور اس جھٹکے میں زیادہ تر حصہ ایکسپورٹ سے متعلقہ کاروبار کا ہے۔ لیکن چین کی معاشی لحاظ سے ”مکس اکنامی“ ہے اس لئے اس کے ہاں بے روزگاری اور بھوک جیسے مسائل پیدا نہیں ہوسکتے۔ وینزویلا‘کیوبا اور حتیٰ کہ روس بھی ان جھٹکوں کو سہ جائیں گے۔ملائشیا بھی ایک مستحکم معیشت کا حامل ملک ہی رہے گا۔
پاکستان کو اپنا اقتصادی نظام نئی سوچ اور نئے اصولوں پر استوار کرنا چاہیے۔ سرمایہ دارانہ نظام یا سوشلزم کی بجائے اسلامی تعلیمات کی روح سے ایک نیا اقتصادی ڈیزائن سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ہم پاکستان اکانومی واچ کے پلیٹ فارم سے اپنے طور پر ”ماڈل نظامِ معیشت“ پر کام کر رہے ہیں۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ متعلقہ ادارے اور افراد آگے بڑھیں اور اسلام کے تقسیم زر‘ نفع و نقصان اور بغیر سود معاشی نظام کو سامنے رکھ کر موجودہ دور کے تقاضوںکے مطابق ایک ایسی دستاویز تیار کردیں جس کے بارے میں دعوے سے کہا جاسکے کہ اس پر عمل کرنے سے ہمارا معاشرہ فلاحی معاشرہ بن جائے گا۔
حکومت کے پاس بھی اقتصادی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ وہ اقتصادی ماہرین اور اسلامی سکالرز کی ایک کمیٹی تشکیل دے جو ملکی معیشت کے لئے تفصیلی بحث مباحثے کے بعد اپنی سفارشات مرتب کردے۔
آئی۔ ایم۔ ایف کا قرض وقتی طور پر سانس کو بحال کردے گا لیکن جسم اس وقت تک بے جان ہی رہے گا جب تک مکمل اور شافی علاج دستیاب نہیں ہوتا۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply