Dec 08

Click here to View Printed Statements

قیامت خیز بارشوں نے ریلے کی شکل اختیار کی‘توقع نہ تھی کہ سیلابی ریلے آپس میں مل کر ”طوفان نوح“ بپا کریں گے۔ جانیں تو بچ گئیں لیکن چھت بہہ گئے۔چولہے برتن‘ کپڑے‘ بپھری لہروں نے اچٹ لئے۔گندم ‘اناج‘مرچ‘ مصالحہ سب کچھ ہی تو بہہ گیا۔بہت شور اٹھا۔بین الاقوامی امدادی ٹیمیں پہنچیں۔پاکستان کی ہر سیاسی اور سماجی تنظیم نے امداد کے لئے کیمپس لگائے۔ خوراک تقسیم کی گئی۔ٹینٹس فراہم کئے گئے۔ نقد رقوم بانٹی گئیں لیکن سارے امدادی کام ابھی ادھورے ہی تھے کہ موسم سرما آگیا۔
چار ماہ کوئی مدت نہیں ہوتی‘دعوے یہی تھے موسم سرما سے پہلے پہلے تمام سیلاب زدگان کو گرم کپڑے مل جائیں گے۔سردی سے بچانے کےلئے کمبل دستیاب ہوں گے۔برف باری اور بارشوں سے بچاﺅ کے لئے پکے گھر ہوں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ سیلاب زدگان کو بھوک سے ہی نجات نہیں دلائی جاسکی۔ کجا کہ انہیں پختہ گھروں کی ”عیاشی“ میسر آسکتی۔سردی سے مرنے سے پہلے شائد یہ لوگ بھوک سے مر جائیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک نے تین ماہ پہلے خبردار کر دیا تھا کہ صوبہ خیبرپختونخواہ ‘پنجاب ‘سندھ اور بلوچستان میںمجموعی طور پر گیارہ ہیکٹر کے رقبہ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوچکی ہیں‘بیس لاکھ کے لگ بھگ جانور مر گئے ہیں اور تیس لاکھ کی تعداد میں مرغیاں ضائع ہوگئی ہیں۔فصلوں کی تباہی اور سیلاب زدہ علاقوں میں دوبارہ کاشت نہ ہونے کے سبب قحط سالی کا منظر ہوگا۔اگر بروقت خوراک کا بندوبست نہ ہوا تو خوراک کی شدید قلت سے ہزاروںبچے اور بوڑھے موت کے منہ میں چلے جائیں گے‘جو مرنے سے بچ گئے وہ بھی ہڈیوں کے ڈھانچے بن جائیںگے۔اکتوبر میں پھر وارننگ دی گئی کہ جن ممالک نے امداد کا وعدہ کیا تھا وہ اپنے وعدوں کو ایفا کریں کیونکہ خوراک خریدنے کے لئے اس عالمی ادارے ورلڈ فوڈ پروگرام کے پاس رقم نہیں اور وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔اکتوبر میں ہی سندھ حکومت کو سندھی علاقوں سے بے گھر ہو کر شہروں کا رخ کرنے والے لاکھوں پناہ گزینوں کی حالت زار اور خوراک کی روز بروز بڑھتی قلت کے حوالے سے مفصل بریفنگ دی گئی تھی۔ابھی پھر تازہ رپورٹ آئی ہے کہ کم از کم بیس لاکھ افراد ایسے ہیں جنہیں خوراک کی کمی کا شدید خطرہ ہے اور اگر اب بھی امدادی اداروں نے بروقت توجہ نہ دی تو نتائج توقع سے بھی بھیانک نکلیں گے۔
حیرت انگریز خبر یہ ہے کہ صوبہ پنجاب کے گوداموں میں پڑی گندم گل سڑ رہی ہے۔ گندم برآمد کرنے کی اجازت مانگی جارہی ہے۔ خراب ہونے والی ہزاروں بوریاں روزانہ گوداموں سے باہر پھینکوائی جارہی ہیں۔ اس گندم پر ہر روز لاکھوں روپے بینکوںکا سود بھی ادا کیا جارہا ہے۔ کیا سبب ہے کہ صوبائی یا مرکزی حکومت اقوام متحدہ کی اپیل پر کان نہیں دھرتی ۔باوجود یہ کہ ہم اپنے ہم وطنوں کے لئے روٹی بھی غیر ملکی اداروں سے مانگیں اور ان اداروں کے نخرے دیکھیں‘کیا بہتر نہیں کہ اپنے گھر میں پڑی گندم کو ان علاقوں کے مفلوک الحال لوگوں میں تقسیم کردیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ گندم کی آنے والی فصل ”بمپر کراپ“ ہوگی اور گزشتہ برس سے کہیںزیادہ گندم پیدا ہوگی۔ اگر تمام اندازے اور تخمینے اسی صورتحال کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو پھر سرکاری سٹوروں میں بھری اس گندم کو صوبہ سندھ‘ بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے بے آسرا لوگوں میں خیرات کر دینے سے کون سی چیز مانع ہے۔
ہمارا میڈیا ہر نئی خبر کی دم پکڑ کر بے سمت دوڑتا ہے۔آجکل ”وکی لیکس“ کے انکشافات امریکہ اور برطانیہ کے اخبارات مسلسل شائع کرکے اپنی گرتی ہوئی سرکولیشن کو سہارا دے رہے ہیں اور ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلز بھی ان جھوٹے اماموں کے پیچھے آنکھیں بند کرکے سربسجود ہوچکے ہیں۔ انہیں خبر ہی نہیں کہ ان کے اردگرد کیا ہورہا ہے۔ گیس کا سلنڈر دو ہزار روپے کو پہنچ چکا ہے ‘پیازاسی روپے کلو ہوگئے ہیں لیکن ہمارے ذرائع ابلاغ کا بڑا حصہ ”روز روشن کی طرح عیاں حقیقتوں کو” انکشافات“ سمجھ کر اپنے قارئین اور ناظرین کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھر رہے ہیں ۔ ان کا کیمرہ سیلاب زدہ علاقوں کا رخ ہی نہیں کرتا‘ ان کا قلم پاکستان کے بیس لاکھ لوگوں کی بھوک کا تذکرہ ہی نہیں کرتا۔ آخر کوئی توازن‘کوئی انصاف۔ اس غریب عوام کو میڈیاسے توقع تھی کہ وہ ان کے مسائل کو لیکر اٹھے گااور کسی نتیجے پر پہنچنے سے پہلے چھوڑے گا نہیں۔”فالواپ“ کہاں گیا….؟ سیلاب زدگان کو ”وکی لیکس“ کے انکشافات سے کیا لینا۔ وہ سارے جانتے ہیں کہ ہمارے ہاں امریکہ کے کہنے پر ہی حکومتیںآتی اور جاتی ہیں۔ جب اتنی بڑی خبر سے ہم سب واقف ہیں تو پھر اس کی عامیانہ اور بازاری تفصیلات پڑھنے سے کیا ملے گا۔”وکی لیکس“ نے سیلاب زدگان کے حق میں تو کچھ بھی ”لیک“ نہیںکیا۔انہیں تو روٹی چاہیے‘ٹھٹھرتے بچوں کے لئے چھت چاہیے‘ یہ کیا ”وکی لیکس“ کھائیں گے اور انکشافات اوڑھیں گے؟

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply