Dec
24
|
Click here to View Printed Statements
ہمیںپی پی حکومت کا مشکور ہونا چاہیے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی سالگرہ سرکاری طور پر منانے کا اہتمام ہوا ہے۔گزرے برسوں میں ہم نے اتنے قائد بنا لئے ہیں کہ اپنے اصل قائد کو بھول ہی گئے ہیں۔ بلکہ آمریتوں کے ادوار میں جان بوجھ کر قائداعظمؒ کی سالگرہ اور برسیوں پر خاموشی اختیار کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں آمریت کاسہّ لیس اورشاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروںنے پاکستان کے کرنسی نوٹوں سے بانی پاکستان کی تصویر ہٹا کر جنرل پرویز کی تصویر لگانے کا پورا منصوبہ بنالیا تھا۔ نمونے کے طور پر ایسے نوٹ تیار بھی ہوگئے تھے۔میں نہیں سمجھتا کہ سابق وزیراعظم جناب میر ظفر اللہ خان جمالی نے کسی غلط بیانی سے کام لیا ہو۔
اگرجمالی صاحب کے پاس تصویر کی تبدیلی کی تجویز لانے والوں کو سخت ردعمل کاسامنا نہ کرنا پڑتا تو یہ ظلم بھی ہوچکا ہوتا۔جو شخص راتوں رات ایک امریکی عہدیدار کے فون پر پورے ملک کو امریکی عذاب سے دوچار کرسکتا ہے اور جس نے ”جدید روشن خیالی“کو”مذہب بنا کر ہماری نسلوں کے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کی کوشش کی وہ تاریخ میں اپنا نام بنانے کے سفلی جذبے سے مدہوش ہو کرکرنسی نوٹوں پر اپنی تصویر لگانے کاحکم صادر کردیتا۔اس دور میں قائداعظم کی ذات اور ان کے افکار کو متنازعہ بنانے کا ٹھیکہ لنڈا بازار کے دانشوروں کو دے دیا گیا تھا۔ ایسی ایسی بولیاں سنائی گئیں کہ کان پھٹنے کو آگئے تھے۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ مسلمانان ہند نے یہ ملک مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ چند امریکی غلاموں کی ناجائز خواہشوں کی بارآوری کیلئے بنایا تھا۔
”پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ اللہ“ والے نعرے کا تمسخر اڑایا گیا۔ اسلام کا حوالہ مٹانے کی ہر کوشش کی گئی ایک گروپ نے امریکیوں کے اشارے پر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں سے اسلام کا لفظ حذف کرنے کی رٹ لگانا شروع کردی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے دوست کالم نگار بیگ راج نے کہیں لکھ دیا تھا ”اگر آج قائداعظم زندہ ہوتے….” تو بگرام ایئربیس پر امریکیوں کی قید میں ہوتے“
قائداعظم کی تقاریر کے حوالے سے بیسیوں تقاریر کو ایک طرف رکھ کر کسی ایک تصویر کو اس کے سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کیا جاتا ہے اور ثابت کیا جاتا ہے کہ قائداعظم اس ملک کو ایک سیکولر یا بے دین ریاست بنانا چاہتے تھے۔راقم نے راولپنڈی میں قائم ایک معتبر تھنک ٹینک“ تھنکرز فورم“ میں ایسے ہی پھیلائے گئے تاثر کے خلاف دستاویزی ثبوتوں کا حوالہ دیکر عرض کی تھی کہ مانا کہ یہ پاکستان اسلام کیلئے نہیںمسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا۔ اگر یہ حقیقت سب تسلیم کرتے ہیں تو کوئی مسلمان بتائے کہ اس کا مذہب اور دین کیا ہے؟ ظاہر ہے اسلام ہے۔ پھر یہ ہٹ دھرمی کیسی؟ اسلام اور مسلمان لازم و ملزوم ہیں۔ اسلام کے بغیر مسلمان نہیں اور جو مسلمان ہے وہ اسلام کے بغیر مسلمان رہ نہیںسکتا۔
فکرو نظر کی ان بحثوں سے بچنے کا ایک راستہ یہ ہے کہ ہم یقین کر لیں کہ قائداعظم اس مملکت خداداد کو اسلام کے فلاحی نظام سے مزین کرنا چاہتے تھے ان کی منزل اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے بحیثیت قوم‘بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان اپنے اس وطن کو حقیقی فلاحی ریاست بنانے کے لئے کوئی تگ و دو کی ہے۔”اسلامی“ تو بڑی دور کی منزل ہے ‘ اس کی پہلی سیڑھی تو ایک فلاحی ریاست ہے جو قرآن و سنت کے لازوال اصولوں پر قائم ہو۔ کیا ہمسائے کے حقوق سے لیکر دولت کی منصفانہ تقسیم اور اختیارات کے عوامی حق تک کوئی پیش رفت ہوئی ہے۔
ہمیں آج پھر ایک بار سوچنا ہے کہ ہماری منزل کیا ہے اور منزل کا تعین بانی پاکستان نے ایک بار نہیں باربار‘ہر تقریر اور ہر میٹنگ میں کیا تھا۔ ہمیںان سارے افکار کو منظر پر لانا ہے جن کو سن کر سمجھ کر ہمارے دل و دماغ اس وطن کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ ہمیں اسلام کا معاشی نظام ترتیب دینا ہے۔رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم والا مدینہ نہ سہی کم از کم اس ماڈل کو نگاہوں میں رکھ کر آگے بڑھنا ہے۔ ہماری اس منزل کے حصول میں جہاں سے روشنی ملے لینی ہے‘ جو مددگار ثابت ہو اس سے فکری مدد لینی ہے۔قائداعظم کو رول ماڈل کے طور پر عوام کے سامنے پیش کرنا ہے۔یہ ثابت کرنے کی بجائے کہ ہماری حکومت جو کام کر رہی ہے وہی قائداعظم چاہتے تھے۔قائداعظم کے ویژن کو بالا وبرتر رکھنا ہے۔نہ ملاں کا فساد اس ملک کو آگے لے جاسکتا ہے نہ ہی مغرب زدہ افکار اسے سنوار سکتے ہیں ۔امت رسول ہاشمی کو قرآن و سنت کی روشنی میں ہی آگے بڑھایا جاسکتا ہے۔