Aug
16
|
پاکستان اور بھارت کے درمیان کھنچی گئی سرحد مصنوعی نہیں اس میں خونِ شہیداں شامل ہے مگر مکاری اور چانکیائی فلسفے پر یقین رکھنے والا بھارتی ہندو دانشور ”بغل میں چھری اور منہ میں رام رام“ کی پالیسی پر آج بھی قائم ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی ضمیر فروشوں کے چہروں، افکار اور کردار سے تو سبھی پاکستانی واقف ہیں۔ ایک بوتل کی مار یہ پاکستانی دانشور رات گئے گندگی کے ڈھیر سے اٹھائے جاتے ہیں اور اگلی شام بطور دانشور پاک بھارت دوستی اور مشترکہ ثقافت کا راگ الاپ رہے
ہوتے ہیں لیکن پاک بھارت دوستی کی آڑ میں دو قومی نظریے کی نفی کی سازش کے باریک کام میں سب سے زیادہ مہارت بھارتی صحافی کلدیپ نیئر کو حاصل ہے۔ حال ہی میں اس شخص کا ایک مضمون ایک انگریزی روزنامے میں شائع ہوا جس کا ترجمہ کرکے ایک اردو اخبار نے ”مشن پر مامور شخص“ کے عنوان سے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔ جس میں کلدیپ نیئر بڑے اعتماد سے فرماتے ہیں کہ ”میرا تو مشن ہی ہر دفعہ یوم آزادی کے موقع پر اور پھر سال بھر بطور مشن پاکستانی اور بھارتی عوام کو ان کی مشترکہ ثقافت، زبان اور دوستی کا توجہ دلاﺅ یاددہانی کرانا ہے۔ حالانکہ ہمارے بزرگ ابھی زندہ ہیں جو کل تک متحدہ ہندوستان میں مسلم پانی اور ہندو پانی کی تفریق کا ذکر کرتے رہے ہیں اور آج بھی بھارت میں مسلمانوں کی حالت زار برہمن سماجی تضاد کے نتیجے میں سب سے نچلے درجے والے شودروں سے بدتر ہے۔
یہاں تک پاک بھارت مشترکہ ثقافت کا تعلق ہے تو میرے ایک دوست سینئر صحافی راجہ جاوید علی بھٹی نے مشترکہ ثقافت کے ڈھول کا پول اپنے ہندی دوستوں کو گائے کے کباب کی دعوت دی جس کے ساتھ ہی مشترکہ ثقافت کے غبارے سے ہوا نکل گئی۔ گزشتہ دنوں بیداری فکر فورم میں رانا عبدالباقی نے ”نہرو کا تصور وحدت ہندوستان اور بانی پاکستان“ عنوان سے اپنے تحقیقی مقالے سے بڑے مدلل انداز میں تاریخی تناظر میں بھارت کے متعصب ہندوﺅں کی مسلمانوں سے ثقافتی ٹکراﺅ اور تہذیبی تصادم کی کئی مثالیں پیش کیں۔ بھارت کی طرف سے پاکستان کے دو ٹکڑے کرکے مشرقی پاکستان میں پاکستان کو فوجی جارحیت کے ذریعے بنگلہ دیش میں تبدیل کرنے کے بعد بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کی نئی دہلی کے گراﺅنڈ میں بھارتی جنتا سے خطاب کے موقع پر یہ الفاظ بھارتی قیادت کی مسلم دشمنی کا پول اچھی کھول دیتی ہے بقول اندرا گاندھی کے ”آج ہندوستان کی ایک ناری نے مسلمانوں سے ہزار سال کی عزیمتوں کا بدلہ لے لیا ہے اور دو قومی نظریہ بحیرہ بنگال میں غرق کردیا ہے“۔ راہول گاندھی نے 2007ءکے ریاستی انتخابات میں اپنی انتخابی تقریر میں بڑے گھمنڈ سے کہا تھا کہ ”نہرو خاندان کو پاکستان توڑنے کا اعزاز حاصل ہے“ جبکہ 2008ءکے انتخابات میں گاندھی کے پوتے ورون گاندھی نے انتخابی تقریر میں اپنے خبث باطن کا کھول کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ”ہندوستان صرف ہندوﺅں کا ہے میں اس ہاتھ سے مسلمانوں کے سر قلم کردوں گا اور ان کو پاکستان ہجرت پر مجبور کردوں گا“۔ سچ تو یہ ہے کہ ہندو سامراج یہ سمجھتا ہے کہ ہندوستان صرف ہندوﺅں کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے پہلے بھی اور آج بھی بااثر ہندو جماعتوں اور فوجی جرنیلوں تک کا اصل مدعا ایک ہی ہے جو کہ نعرے کی صورت میں ہندوستان کی سرزمین پر گونجتا رہتا ہے ”ہندوستان میں رہنا ہے تو رام رام کہنا ہے“۔ متعصب برہمن ہندو سمجھتا ہے کہ ہندوستان صرف ان ہندوﺅں کا ہے جن کے مقدس مقامات اور عبادتگاہیں ہندوستان میں ہیں جبکہ مسلمانوں اور مسیحوں کے مقدس مقامات ہندوستان سے باہر ہیں اس لئے یہ خارجی لوگ ہیں۔ ان کے بارے میں ان کی سوچ یہ ہے کہ ”اگر کوئی چور آپ کے گھر میں گھس آئے آپ اسے نکال نہ سکتے ہوں تو اسے زندہ جلا دیں“۔ یہی وجہ ہے کہ گجرات میں مسلمانوں کے سینکڑوں گھروں کو نذر آتش کرکے مکینوں کو زندہ جلا دیا گیا۔ حتیٰ کہ مالیگاﺅ ں میں مسلمانوں کے واحد گھر میں بچوں عورتوں سمیت جلا دیا گیا جن کا سربراہ سرحد پر بھارت کی حفاظت کررہا تھا۔ یہ چند واقعات پاک بھارت مشترکہ ثقافت کے دعویداروں کی زمینی حقائق کی روشنی میں نفی کے لئے کافی ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے معاندانہ تعلقات کی جڑیں قدیم ہندو مسلم آویزش میں پیوست ہیں۔ اسلام نے برصغیر میں ہندو مذہب کی اجارہ داری کو قبول کرنے سے انکار کیا اور اس میں ضم نہ ہوا۔ اس نے نہ صرف اپنا منفرد معاشرتی، معاشی اور سیاسی ڈھانچہ برقرار رکھا بلکہ تبدیلی مذہب سے لوگ دائرہ اسلام میں تیزی سے داخل ہونے لگے۔ پھر اسلامی اقتدار کے قیام سے ہندو مذہب کا احساس تفاخر مجروح ہوا جس سے جنوبی ایشیاءمیں اسلام اور مسلمانوں کے متعلق ہندوﺅں کا رویہ تشکیل پذیر ہوا۔ مسلمان بھی ہندو مت کو اپنا بڑا حریف خیال کرتے رہے۔ جنوبی ایشیاءمیں برطانوی حکومت کے قیام کے بعد ہندو مسلم معاندت میں تیزی آئی کیونکہ ملازمتوں ، عہدوں اور دیگر مادی فوائد و اختیارات تک رسائی کے لئے مسلمانوں اور ہندوﺅں میں مسابقت شروع ہوگئی۔ ہندو مسلم تاریخی عداوت میں اس وقت مزید شدت پیدا ہوگئی جب آزادی سے قبل کانگریس اور مسلم لیگ نے قومیت کے دو بالکل متضاد تصورات (ایک قوم بمقابلہ دو قومی نظریہ) پیش کئے۔ مسلم لیگ کے نزدیک جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لئے علیحدہ مملکت کا مطالبہ ان کے منفرد مذہبی، ثقافتی اور سیاسی شناخت کا تقاضا تھا۔