Jan
06
|
Click here to View Printed Statements
پاکستان کو ورثے میں وسائل کم اور مسائل بہت زیادہ ملے ہیں۔ تقسیم ہند کے فارمولے پر مکمل عملدرآمد نہ ہونے سے مملکت پاکستان کو معرض وجود میں آتے ہی رکاوٹوں اور مشکلات نے گھیر لیا۔ ہندوروایتی کی بدطنیتی کا اظہار تو اسی وقت ہوگیا تھا جب انتہائی عجلت میں تقسیم کا اعلان کردیا گیا۔ یہ باتیں اب دہرانے کی نہیں کہ پاکستان کو متحدہ ہندوستان کے اثاثوں سے طے شدہ حصہ بھی نہ دیا گیا۔ پھر مہاجرین کا قافلہ در قافلہ نہ رکنے والا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ ”سرمنڈاتے ہی اولے پڑے“ والی صورتحال پیدا ہوگئی۔
مالی تنگدستی‘حکمرانی کے شعبہ میں ناتجربہ کاری اور سازش کے تحت بھارت کا کشمیر پر قبضہ اور قبضے کے خلاف 1948ءمیں جنگ آزادی کشمیر…. یہ وہ بنیادی حقیقتیں ہیں جنہیں ذہن میں رکھ کر ہم پاکستانی مسائل کا احاطہ کرسکتے ہیں۔
بھارت کے رہنماﺅں کی طرف سے آغاز ہی میں پروپیگنڈا شروع کردیا گیا کہ یہ ملک چند دنوں کا کھیل تماشہ ہے اور اس کی معاشی صورتحال ایسی ہے کہ پاکستان اپنی موت آپ مر جائے گا بھارتی قیادت کو یقین تھا کہ ملک بن تو گیا ہے لیکن ایک روز گھٹنوں کے بل گر کر دوبارہ ہندوستان سے الحاق کرلے گا۔ اس منفی پروپیگنڈہ نے پاکستانیوں کے دل میںہندوستان کی طرف سے نہ ختم ہونے والے خدشات کابیج بو دیا تھا۔آزادی کشمیر کی جنگ نے پاکستان کے لوگوںکے اندرنہ صرف یہ کہ اپنے تحفظ کے لئے ایک مضبوط فوج کی ضرورت محسوس کرنا شروع کردی بلکہ ہر وقت یہ خطرہ بھی منڈلانے لگا کہ بھارت کسی بھی وقت پاکستان پر یلغارکردے گا۔ یہی وہ خوف ہے جس نے ہماری معاشی پالیسی کی ترتیب میں بنیادی کردار ادا کیا۔ پہلے قومی بجٹ میں ہی دفاعی بجٹ کے مقابلے میں تعلیم‘ صحت اور ترقیاتی کاموں کیلئے مختص کیا گیا بجٹ ہاتھی کے منہ میں زیرہ تھا۔ اپنی عوام نے قیام پاکستان کے بعد پاکستانی حکومتوں سے بہتر طرز زندگی کی جو توقعات وابستہ کر لی تھیں وہ پوری ہونا محال تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فوجی اخراجات بڑھتے گئے اور ان بڑھتے ہوئے اخراجات کو قرضے لے کر پورا کیا جانے لگا۔ قائداعظمؒ کی غیر متنازعہ اور قدآور قیادت ایسی تھی کہ لوگ ہر طرح کی قربانی دینے پر بخوشی آمادہ رہے لیکن جوں ہی قائد رخصت ہوئے تو عوام الناس کے اندر بھوک اور غربت کی دلدل سے نکلنے کی شدید آرزو ابھری۔کیا یہ حقیقت نہیںہے کہ شہید ملت لیاقت علی خان کے دور حکومت میں کراچی کی سڑکوں پر حقوق کے حصول کیلئے ایسے ہی مظاہرے شروع ہوئے جیسے کبھی انگریزوں کیخلاف آزادی کا حق لینے کے لئے کئے جاتے تھے۔ ہماری سوچ نے احتجاج کی شکل اختیار کرنا شروع کردی تھی۔ حق لینے کے لئے احتجاج ‘ قیمتوں میں اضافہ کیخلاف احتجاج‘بے روزگاری کیخلاف احتجاج۔یہ رویہ پروان چڑھتا رہا۔ ہماری افواج اپنے سے دس گنا بڑے بھارت کا مقابلہ کرنے کے لئے جدید امریکی اسلحہ سے لیس ہوتی رہیں ‘ فوج کی تعداد اور استعداد بڑھانے کے لئے ہر حکومت اور ہر حکمران نے خزانے کے منہ کھولے اور خزانہ خالی ہونے کی صورت میں امریکہ سے مزید امداد اور قرضے لینے کا کلچر پروان چڑھاتے رہے۔ سچ یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لیکر آج تک حکومتی مشینری‘سیاسی جماعتوں اور فوجی آمریتوں کے ذہنوں پر بھارت کی برابری‘ بھارت کا خوف‘بھارت کی اجارہ داری ختم کرنے کا کچھ ایسا جنون طاری رہا کہ کسی دور حکمرانی میں بھی ”گڈگورنس“ سستا اور فوری انصاف‘مددگار پولیس‘ خدمتگار بیوروکریسی‘دولت کی منصفانہ تقسیم اور تعلیم اور صحت کی فراہمی کبھی ترجیح بن پائی ہی نہیں ۔ جب خوشحالیاں مسلسل روٹھی رہیں اور معمولی حق کے لئے بھی جلاﺅ گھراﺅ اور ہڑتال کی راہیں ہی اختیار کرنا پڑیں تو پھر تعمیر وطن کی طرف کون گامزن ہوتا۔ہر کوئی راتوں رات اپنے حالات سنوارنے میں لگ گیا۔جس کے نتیجے میں سفارش‘رشوت‘دھونس اور دھاندلی جیسی بیماریاں عام ہونا شروع ہوئیں۔
غیر ملکی قرضوں نے ہمیںمقروض ہونے کا احساس دلایا اور ہماری نفسیات میں ایک اور خوف بیٹھ گیا۔ ایک سوال نے سر اٹھانا شروع کیا۔ یہ قرضہ عوام نے نہیں لیا‘عوام پر نہیں لگا‘پھر کدھر گیا؟ اس سوال نے حکمران طبقہ اور عوام کو ایک دوسرے سے کوسوں دور کردیا۔
پہلے مارشل لاءنے عوام کے ذہن میں یہ گرہ ڈال دی کہ انہوں نے جس پاکستان کے لئے قربانی دی تھی اس کی حکمرانی میں ان کا کوئی حصہ ہی نہیں۔ کاش کہ ایوب خان اور محترمہ فاطمہ جناحؒ صدارتی انتخابات میں آمنے سامنے نہ آئے ہوتے۔فاطمہ جناحؒ کےخلاف ایوبی حکومت کے غیر مہذب ہتھکنڈوں نے پاکستانی عوام کے اندر ایک اور منفی احساس کو جنم دیا۔”یہ پاکستان اب قائداعظمؒ والا پاکستان نہیں رہا۔ جس ملک میں قائداعظمؒ کی ہمشیرہ کو صدارت کا الیکشن ہرانے کے لئے بدترین دھاندلی ہو سکتی ہے وہ اب امریکی غلاموں کا ملک بن گیا ہے“1965ءجنگ کے ہیرو جناب اصغر خان ابھی حیات ہیں۔ وہ یہ بات کئی بار آن ریکارڈ کہہ چکے ہیں کہ 6ستمبر 1965ءکی جنگ بھارت نے نہیں پاکستان نے شروع کی تھی۔ یہ جنگ ایوب خان کو فیلڈ مارشل بنانے کا ایک راستہ تھا۔ ہم آج جسے جیت کہتے ہیں‘ حقائق بلکہ اسے جیت ماننے پر تیار نہیں۔ بھارت نے کمال ہوشیاری سے اقوام متحدہ کے ذریعے اس جنگ کو رکوا دیا کیونکہ وہ اپنی معاشی ترقی کیلئے آگے بڑھنا چاہتا تھا۔پاکستان کو 1965ءکی جنگ میں کس قدر مالی نقصان ہوا اور امریکہ کی مداخلت کس حد تک بڑھ گئی تھی ان حقائق پر کتابیں بھری پڑی ہیں۔ لیکن صرف اتنی حقیقت ہی ذہن نشین کر لیجئے کہ 1971ءتک ہمارے پاس اتنے پیسے بھی نہیں بچے تھے کہ مشرقی پاکستان کے دفاع کےلئے بھارت کے مقابلے پر کوئی موثر دفاعی بندوبست ہی کرپاتے۔
1971ءکی شکست فاش اور شرمناک سقوط ڈھاکہ نے بھارت کے اس پروپیگنڈہ کو سچ ثابت کردیا کہ یہ ملک برقرار نہیں رہ سکے گا بھارت بڑی دھوم دھام سے اپنی سلور جوبلی منا رہا تھا اور ہم شکست خوردہ ہو کر اپنے زخم چاٹ رہے تھے۔آدھا ملک چلے جانے کے بعد عوام الناس ہی نہیں خود افواج پاکستان کے اندر خوف کے ساتھ ساتھ غصہ بھی شامل ہوگیا۔ فوج کے اندر یہ دھن کہ 1971ءکی شکست کا بدلہ لینا ہے اور عوام الناس کے اندر مذہبی قیادتوں کا ہندوﺅں کےخلاف جہاد کا علم بلند کرنے کا عزم۔ یہ ہیں وہ دو جذبے جنہوں نے ہماری قومی سوچ کو بالغ کردیا اور اسی انتقام بر مبنی سوچ کے تحت ہی ہم نے ایٹم بم بنایا ہے۔ میزائل چھوڑے ہیں۔پرائیویٹ جہادی تنظیمیں بنی ہیں۔ ہماری اسی سوچ سے فائدہ اٹھا کرامریکہ نے ہمیںروس کے خلاف افغانستان کے اندر جہاد کی راہ پر ڈالا اور ہمارے اوپر احسانات کے نام پر قرضوں کا بوجھ لاددیا۔ مدد اور اور ایڈ کے نام پر قومی خود مختاری کو ہم سے چھین لیا۔آج بھی ہمارا تعلیمی بجٹ دو فیصد سے زیادہ نہیں‘ہمارا صحت کا بجٹ ایک فیصد سے زیادہ نہیں۔امریکہ اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق حکومت اور نظام حکومت میں تبدیلیاں لاتا ہے ۔مالی کرپشن ‘ بدترین گورنس‘سفاک پولیس‘اور آمرانہ ذہنیت رکھنے والے جرنیل‘ حتی کہ مادرپدر آزاد میڈیا۔ یہ سب وہ کڑوے پھل ہیں جو ہمیں تعمیروطن کی راہ سے ہٹنے کے نتیجے میں ملے ہیں۔ بھارت نے ہمیں انتقام کی اس دلدل میں دھکیلا اور ہم اس میں دھنستے چلے گئے۔ دنیا نے دل کھول کر مہنگے داموں ہمیں اپنا اسلحہ بیچا۔ آج ہمارے پاس اسلحہ کے انبار ہیں لیکن ضرورت کے لئے اناج نہیں‘بہترین فوج ہے لیکن سرحدیں غیر محفوظ ہیں‘ہم پر کرپٹ ترین حکمران مسلط ہیں اور ہمارے پاس کوئی متبادل قیادت نہیں۔ ہمارے انتہائی حساس ادارے کے سربراہ کو امریکی عدالت نے طلب کر رکھا ہے۔جنرل پرویز مشرف نے بھارت سے انتقام لینے کے لئے ہی کارگل کا معرکہ بپا کیا اور پھر پاکستان کو ہمیشہ کے لئے امریکہ کی غیر مشروط غلامی میں دے ڈالا۔ تعلیم‘ صحت ‘زراعت انڈسٹری‘امن وامان‘صوبائی ہم آہنگی یہ سب مسائل تو تب حل ہوسکیں گے جب ہمیں اپنے قومی فیصلے خود کرنے کی آزادی حاصل ہوگی۔اگست 1947ءمیں برطانیہ کے غلام تھے۔اگست 2010ءمیں امریکہ کے غلام ہیں۔ غلام قوم کو اسی حکمت و دانائی سے ایک بار پھر آزادی حاصل کرنی ہے جس طرح قائداعظمؒ نے ہندو اور انگریز جیسے مشترکہ دشمن سے بغیر گولی چلائے آزادی حاصل کی تھی۔
سب سے بڑا مسئلہ وسائل کی کمی ہو لیکن میرے نزدیک سب سے بڑا مسئلہ آج ”پہچان“ کا مسئلہ ہے قیام پاکستان کے وقت ہم سب مسلمان تھے‘سب پاکستانی تھے۔ہماری ذاتی شناختیں مٹ گئی تھیں۔ ہم پٹھان‘پنجابی‘سندھی‘بلوچی اور بنگالی کے محدود خول توڑ کر ایک نئی شناخت لے کر ابھرے تھے۔ ہم سب کا نام پاکستانی تھا۔ تحریک پاکستان کے جذبے کو تعمیر پاکستان کے جذبے سے جوڑنا تھا جو نہ ہوسکا۔آج ہم پھر اپنے محدود خول اور حوالوں میں الجھ گئے ہیں۔ایک بار پھر بکھر گئے ہیں۔
آج آپ کسی بوڑھے‘نوجوان‘ پڑھے لکھے یا ان پڑھ سے پوچھیں”کیا آپ کو یقین ہے کہ پاکستان سو سال بعد بھی قائم رہے گا؟“اکثریت آپ کو نفی میں جواب دے گی بلکہ پڑھے لکھے لوگ کہیں گے کہ دس سال کا علم نہیں آپ سو سال کی بات کرتے ہیں۔ قیام پاکستان کے وقت ہر زبان سے ایک یقین لپکتا تھا”بن کے رہے گا پاکستان“ لے کر رہیں گے پاکستان“دنیا میں واحد پاکستانی قوم ہے جسے اپنے ملک کے قائم رہنے پر یقین نہیں ورنہ برما جیسے ملک کے باشندے بھی یقین رکھتے ہیں کہ جب تک یہ کرہ ارضی ہے ان کا ملک موجود رہے گا۔ اس بے یقینی کو نعروں سے یقین میں نہیں بدلا جاسکتا۔ دانشوروںکو آگے بڑھنا ہے اپنے لئے نہ سہی سترہ کروڑ لوگوں کے گھر کو بچانے اور ضرب کھاتی ان کی آنے والی نسلوں کی اس جائے پناہ کو بچائے رکھنے کی خاطر اپنی نجی گفتگو اور اپنی تنظیمیں سرگرمیوں سے اپنے اردگرد کے لوگوں کو یقین دلانا ہے کہ جغرافیہ اگر سکڑ سکتا ہے تو پھیل بھی سکتا ہے۔پاکستان بنا ہی قائم رہنے کے لئے ہے۔پاکستان کے حالات امریکہ کے ابتدائی ڈیڑھ دو سو سالوں سے بہت ہی بہتر ہیں۔ امریکہ بھی دو حصوں میں تقسیم ہوا تھا‘ وہاں بھی خانہ جنگیاں ہوتی رہی ہیں۔آج بھی لاطینی امریکہ کے تمام ممالک یو ایس اے کے دشمن ہیں۔ اور کسی وقت بھی امریکہ کو وجود کے شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔
مختلف مسالک کے ماننے والوں نے تحریک پاکستان کے دوران ایک خدا‘ایک رسول‘ایک کتاب کے نعرے پر تحریک چلائی تھی۔پاکستان مخالف رجحانات رکھنے والے علماءقیام پاکستان کے بعد تمام مسالک کے ساھ ملکر بانی پاکستان سے تعمیر وطن کے عہدو پیمان باندھے تھے۔شاہراہ تعمیروترقی پر چل نہ سکے تو پگڈنڈیوں پر ڈگمگانے لگ پڑے۔ آج مرنے مارنے کی ساری صلاحیتیں غیروں کے لئے وقف کردینے والوں کو کوئی آکر راہ راست نہیں دکھائے گا۔ اگر اسلام کے آفاقی اصولوں پر یہ مسالک اور ان سے وابستہ گروہ یکجہتی کی راہ پر واپس نہیںآئیں گے تو ان کے حصے میں عوام بیزاری او رخون خرابے کے سوا کچھ نہیں آئے گا۔ جس طرح یورپ میںعیسائیوں کے فرقوں نے آپس میںلڑلڑ کر اپنی طاقت کو ہی زائل کر لیا تھااسی طرح یہاں آپس میں برسرپیکار مسلکی گروہوں کا انجام بھی اجتماعی خودکشی کی صورت میں نکلے گا۔اخلاق سنوارنے والے ناصحین اور علماءجب جسموں کی کانٹ چھانٹ پر لگ جائیں گے تو ان کے اپنے جسم لوہے کے تھوڑ ہی بنے ہوئے ہیں ؟ انہیں ایک بار پھر قرآن اور اسوہ رسول کی تعلیم حاصل کرنا ہوگی۔
اب قائداعظمؒ نہیں آئیں گے۔کوئی مسیحا نہیں اترے گا۔مجھے اور آپ کو‘خود اپنے طور پر اس وطن کے مسائل کا ادراک اور ا س کے حل کی تگ و تاز کرنا ہوگی۔اگر ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ملک ہماری ضرورت ہے تو پھر اس کے نکھار میں اپنا حصہ ڈالئے ورنہ یہ ملک چھوڑ کر کسی دوسرے جزیرے کا قصد کیجئے! سچے دل سے اپنے دل کو ٹٹول کر دیکھئے تو پاکستان کے مسائل کا حل آپ کے سامنے ہے!!
جہاں میں اہل ایماںصورت خورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبنے ادھر نکلے‘ادھر ڈوبے ادھر نکلے