Aug
20
|
Click here to View Printed Statment
سولہ کروڑ لوگوں میں سے خطِ غربت سے نیچے ایڑیاں رگڑنے والے غریبوں کی تعداد کسی طرح بھی چھ کروڑ سے کم نہیں ہے۔ ہر وہ پاکستانی جو خود دو وقت کی روٹی کما نہیں سکتا وہ خطِ غربت سے نیچے ہی تصور کیا جائے گا۔ چھ کروڑ لوگوں کی حالت فقیروں اور مانگتوں جیسی ہے۔جو خوددار ہیں وہ تو خودکشی کو ترجیح دیتے ہیں۔
جو صابر ہیں وہ ایک وقت کے کھانے پر روح اور جسم کے رشتے کو بحال رکھتے ہیں اور جو بھوکے مر جانے کے خوف میں مبتلا رہتے ہیں وہ ادھار لیتے‘گردے بیچتے‘بچے فروخت کرتے‘عزتیں نیلام ہوتی دیکھتے اور بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلاتے اور آنکھیں مضطرب کئے رہتے ہیں۔ حد یہ کہ پنجاب جسے غلے اور گہیوں کا گھر کہا جاتا تھا وہاں بھی آٹاخریدنا ناممکن ہوتا جارہا ہے۔اگر سستی روٹی کے متلاشیوں کا اندازہ لگانا ہو تو راولپنڈی سیٹلائٹ ٹاﺅن کے ایک علاقے میں چالو آٹومیٹک پلانٹ پر جا کر دیکھ لیجئے۔ مزدور‘ دیہاڑی دار‘خوانچہ فروش اور سفید پوش قطاروں میں لگے”من و سلویٰ“ کے منتظر رہتے ہیں۔اگر بازار سے پانچ روپے فی روٹی کے حساب سے گھر کے سربراہ کو چھ افراد کے لئے کھانا مہیا کرنا ہو تو مہینے کے لئے صرف آٹے کی مدمیں چار ہزار روپے درکار ہیں۔ آپ اپنے اردگرد خود دیکھ لیں کتنے گھروں میں تیس روز مسلسل چولہا جلتا ہے۔چنگیر روٹیوں کی گرمی سے آشنا ہوتی ہے اور ہانڈی اور چمچے کا ملاپ کب ہوتا ہے؟
یہ سچ ہے کہ غربت ختم نہیں ہوسکتی لیکن غربت اور امارات میں پائی جانے والی خلیج کو تو کم کیاجاسکتا ہے۔پنجاب کے وزیراعلیٰ جناب شہبازشریف نے ٹھیک کہا تھا کہ اگر دولت کی تقسیم مناسب انداز میںنہ کی گئی تو پھر نرم نہیںخونی انقلاب آئے گا۔ شائد وزیراعلیٰ پنجاب کو دلوںمیں ابلنے والے جذبات اور دماغوں میں پکنے والے خیالات کا احساس ہے اسی لئے وہ غرباءسے ہمدردی کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور یہ کہنا مبالغہ نہ ہوگا کہ حکمران طبقے میں سے میاں شہبازشریف شائد واحد حکمران ہیں جنہوں نے بہرحال اپنے ذاتی پروگرام اور منشور میں غریبوں کی دلجوئی کا نکتہ بھی شامل کر رکھا ہے۔ سستے تندور ایک سسٹم کے تحت چلائے جارہے ہیں اور ان کی تعداد میں اضافہ بھی کیا جارہا ہے یہ صالح عمل اپنی نوعیت کی مثالی عوامی خدمت کہلائے گا۔
رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور جس طرح بکرے قصائی کے ہاتھ میں چمکتا چھرا دیکھ کر مذبح خانے میںپہنچنے سے پہلے خوفزدہ ہوجاتے ہیں‘یہی حالت مزید مہنگائی کے آثار دیکھ کر اس وقت سفید پوش پاکستانیوں کی ہے۔ جہاں تک غریب غرباءکا تعلق ہے تو وہ موت و حیات کی سرحد پر کھڑے ہیں ان کے پاس شائد اب کھونے کے لئے کچھ رہا ہی نہیں۔ رمضان المبارک کی آمد سے قبل جناب شہبازشریف کی طرف سے ”رمضان دستر خوان“ کا اعلان گویا مردوں میںنئی زندگی پھونکنے کے مترادف ہے۔ کیا منظر ہوگاجب ہر شہر کے چوک چوراہے میں سحری اور افطاری کے اوقات میں دسترخوان بچھے ہونگے اور مساکین اور غرباءوہاں عزت کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھا رہے ہوں گے۔ اگر یہ سیاسی حیلہ بھی ہے تو یقینا ایسی سیاست کے صدقے اور واری جانے کو جی چاہتا ہے۔
میرا گھر بحریہ ٹاﺅن راولپنڈی کے قریب ہے اور کئی بار بحریہ ٹاﺅن سے گزر کر ہی گلستان کالونی جاتا ہوں۔ گزشتہ چھ ماہ سے دیکھ رہا ہوں کہ شام کے وقت بحریہ ٹاﺅن کی انتظامیہ میز کرسیاں بچھا کر بوسیدہ حال لوگوں کو ان کرسیوں پر بٹھاتی ہے‘پھر خوشبوئیں چھوڑتے سالن اورگرما گرم چپاتیاں رکھی جاتی ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ ملک ریاض حسین جیسے مصروف ترین لوگ خدمت خلق کےلئے اتنا وقت نکال لیتے ہیں۔ غریبوں‘مسافروں اور ناداروں کے لئے اس سے بہتر شائد ہی کوئی عمل ہو۔ سچ تو یہ ہے کہ غریبوں کے لئے دستر خوان بچھانے کا کلچر جناب ملک ریاض حسین نے ہی شروع کیا۔ کتنے ہی صاحب ثروت لوگ ہیں جو بحریہ ٹاﺅن والوں کے اس غریب پروری کے پروگرام میں خاموشی کیساتھ حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس عمل کی ضرورت کی طرف خود قرآن راغب فرماتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔” مال کی محبت کے علی الرغم جو لوگ اپنے مال کو قرابت داروں‘ یتیموں ‘ غریبوں ‘مسافروں اور غلاموں پر خرچ کرتے ہیں وہ نیکی کی انتہا کو چھوتے ہیں“۔
دسترخوانوں کی روایت چل نکلی ہے ۔ اگر ہر کھاتا پیتا شخص اپنے کھانے کے ساتھ ایک نادار کے کھانے کا بندوبست کردے تو کم از کم اس ملک میں پیٹ کی بھوک ختم ہوجائے گی۔ کروڑوں پاکستانیوں کے نان و نفقہ کا بندوبست صرف ریاست کی ذمہ داری ہی نہیں بلکہ ہر صاحب ثروت شہری‘ہر منافع بخش ادارے اور کاروباری کارپوریشن کی بھی سماجی اور انسانی ذمہ داری ہے۔ چاروں صوبوں کے اندر اس طرح کے دسترخوان بچھنے چاہیں۔ اگر یہی کام منظم طریقے سے ملکی سطح پر رواج پاجائے تو ایک طرف جہاں غرباءکا بھلا ہوگا وہاں پاکستان کا امیج بھی بہت خوبصورت بن جائے گا۔ دنیا اتنا تو کہے گی کہ پاکستان اپنے شہریوں کو کم از کم دو وقت کی روٹی تو دے ہی سکتا ہے۔ ابھی دسترخوانوں کی تنگ دامنی آڑے آرہی ہے۔ کھاتے پیتے لوگو‘ حکمرانو! خدارا دسترخوانوں کو وسیع کرو!۔