Feb
04
|
Click here to View Printed Statements
تعلیمی بجٹ میںاضافہ تو اب محض ایک سہانا سپناہی رہ گیا ہے جو ہرسیاسی پارٹی کے منشور میں خوبصورت خطاطی کا لباس پہنے چھوئی موئی بنا بیٹھا ہے۔برسراقتدار آنے کے بعد جب وزیر تعلیم بجٹ کی اس مد پر لب کشائی کرنا چاہتا ہے تو اس کے ہونٹ خشک ہوجاتے اور ماتھے پر شرمندگی کے پسینے پھوٹنے لگتے ہیں۔ٹاٹ سکولوں پر بیٹھنے والے جب بڑے عہدوں پر پہنچ کر اپنے سکول جاتے بچوں کی ٹائیاں درست کر رہے ہوتے ہیں تو بھول جاتے ہیں
کہ ان کے پیروکار”ٹاٹیئنز “ کو اب سرے سے سکول ہی مسیر نہیںہیں۔سلطانہ فاﺅنڈیشن کی طرف سے سامنے آنے والی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ملک کے چھ کروڑ بچے ایسے ہیں جو سکول جانے کی عمر تو رکھتے ہیںلیکن ان کے لئے سکول ہیں نہ اساتذہ‘ٹاٹ تو ان کے لئے عیاشی ہوگی! ستم ظریفی دیکھئے کہ قیام پاکستان کے بعد افسر شاہی کے مزے لوٹنے والوں کی اکثریت کا تعلق دیہی علاقوں سے تھا اور وہ سب ماسٹر کے ”ہدایت اللہ“ کی وساطت سے ہی سدھائے گئے تھے اور ان کا سارا رعب و دبدبہ ٹاٹ سکولوں کے مرہون منت تھا لیکن جب انہوں نے اختیارات کے گھوڑے کی باگ ڈور سنبھالی تو اس قدر سرپٹ دوڑے کہ ان کو دیہات بھی بھول گئے‘پسماندگیاںبھی ذہنوں سے محو ہوگئیں اور ”دو دونے چار“ کے رٹے بھی طاق نسیاں پر رکھے گئے۔ بابوﺅں کی اس فوج ظفر موج نے گزشتہ ساٹھ برسوں تک اس ملک کی تعلیمی پالیسیاں وضع کرنے میں ٹنوں کے حساب سے کاغذ ضائع کئے اور اربوں روپے کی سٹیشنری پھونک ڈالی لیکن غریبوں کے سکول پہلے سے بھی بدحال ہوگئے۔
ٹاٹ سکولوں کا سب سے بڑا فائدہ یہ تھا کہ وہاںایک ہی صف میں ”محمود وایاز“ بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔نمبردار کا بچہ اور بشیرے موچی کا ”منڈا“ ساتھ ساتھ نہ سہی لیکن ایک ماسٹر جی سے سبق تو لیتے تھے۔ اب تو انسانی حقوق اسقدر ”یکساں “ ہوگئے ہیں کہ غریب کا بچہ امیروں کے مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں صرف جھاڑو دے سکتا ہے وہاں بیٹھ کر علم حاصل نہیں کرسکتا۔پنجاب کے وزیراعلیٰ کو غریب پروری کا ہمیشہ دعویٰ رہا ہے۔ دانش سکول سسٹم اسی طرف ایک قدم بتایا جارہا ہے۔خبریں بنانے اور تصویریں چھپوانے کے لئے ایسے اقدامات تیر بہدف نسخے ہوتے ہیں۔ایک سکول جس میں ساڑھے تین سو بچے پڑھتے ہیں اس پر ساڑھے تیرہ کروڑ روپے لگا دیئے گئے ۔پنجاب کے باقی لاکھوں پرائمری سکولوں کا کیا بنے گا؟ یہ سوچنے کے لئے شائد حکمرانوں کے پاس فرصت نہیں یا ایسا سوچنے سے خبر بن نہیں پاتی ۔ سکول سے محروم بچوںکا کوئی درماں کرنا تو دور کی بات جو سرکاری سکولوں میںخاک پھانکتے ہیں ان کی حالت زار پر کسی کو رونا آتا ہے نہ ہی کسی ”سخت گیر“ وزیراعلیٰ کا دل پسیچتا ہے۔سرکاری کالجوں کامعیار تعلیم بلند کرنے کے بہت دعوے کئے جارہے ہیں اور اس کی خاطر ہر کالج کے لئے بورڈ آف گورنرز کے قیام کا حکم دیا جاچکا ہے جس کے خلاف طلبہ اور اساتذہ سراپا احتجاج بنے رہے ہیں۔ہوسکتا ہے کہ یہ حکم نامہ واپس ہوجائے یا چند ترامیم کے ذریعے لاگو ہوجائے۔ اساتذہ کو اعتراض ہے کہ ایسے بندوبست سے ان کی ”آزادی“ چھین لی جائے گی اور ان کی ترقی اور تنزل کے فیصلے یہ خود مختار بورڈز کریںگے۔ طلبہ کو ڈر ہے کہ فیسوںمیں اضافہ ہوگا اور اس طرح وہ کاغذ کی جو ڈگری حاصل کر لیا کرتے تھے اس سے بھی محروم ہوجائیں گے۔راقم خود ایک پرائیویٹ سکول چلاتا ہے۔ راولپنڈی اسلامک سکول آف ایکسیلینس(رائز) کے نام سے میں نے یہ ادارہ راولپنڈی کینٹ کے پسماندہ علاقے میں قائم کر رکھا ہے۔ معروف دانشور جناب نسیم انور بیگ اور نظریہ پاکستان کے اکابرین کی اخلاقی مدد حاصل ہے۔ایک بچے کی معیاری تعلیم پر کم از کم ایک ہزار روپے ماہانہ کا خرچہ اٹھتا ہے۔ بچے کے والدین سے اوسطاً چار سو روپے وصول ہوتے ہیں باقی میں اور میرا خاندان اپنے ذاتی وسائل سے کسی نہ کسی طرح پورے کر رہا ہے ۔لیکن قارئین ! آپ حیران ہوں گے کہ بچوں کے والدین یہ رقم دینے سے بھی قاصر ہوتے ہیں اور ہر روز کوئی ماں‘ کوئی باپ اس غرض سے دستک دیتا ہے کہ اس بار ان کی آمدن معمولی رہی اس لئے فیس ادا نہیں کرسکتے۔ اللہ کا کرم ہے کہ میں نے تعلیم وتربیت کا یہ ادارہ کسی کاروباری مقصد کے لئے نہیں بنایا۔آپ سوچیں کہ کاروباری تعلیمی ادارے کیا ایسے بچوں کو قبول کریں گے جو فیس نہ دے سکتے ہوں؟ یہی وہ مسئلہ ہے جس کے سبب مڈل کلاسیوں کے بچے سرکاری سکولوں میں جانے پر مجبور ہیں اور وہاں جانے کا مطلب یہ ہے کہ یہ کروڑوں بچے بڑے ہو کر ڈگریاں لے کر بھی مارکیٹ کا مقابلہ نہیں کرپاتے کہ ان کا تعلیمی نصاب‘ اساتذہ کی اہلیت اور تعلیمی ماحول انہیں اپر کلاس سے کوسوں پیچھے پھینک دیتاہے۔
ضرورت تو یہی تھی کہ حکومت اور حکمران ٹولے اپنے غیر ضروری اخراجات بند کرتے‘تعلیم کو پرائیویٹ ہونے سے بچاتے اورریاست کے سارے وسائل سرکاری تعلیمی اداروں کی بہتری کے لئے جھونک دیتے لیکن ایسانہیں کیا گیا اور اب پنجاب کے رحم دل وزیر اعلیٰ نے بھی سرکاری کالجوں کو خود مختاری دینے کا فیصلہ فرما دیا ہے۔ خودمختاری کا سادہ سا مطلب یہ ہے کہ معیار تعلیم کی بلندی کےلئے جو اضافی اخراجات اٹھیں گے وہ حکومت تو مہیاکرنے سے ماضی کی طرح قاصر ہی رہے گی۔ عملاً یہ ہوگا کہ بورڈ فیصلہ کرے گا کہ وسائل پیدا کرنے کے لئے بھاری فیسیں وصول کی جائیں اور دوچار سال کے بعد بھاری فیسیں دے سکنے والے طلبہ و طالبات ان کالجوں میںنظر آئیں گے باقی کے ”ٹاٹیئنز“ گلیوں میں آوارہ پھریں گے یا پھر ردعمل کا شکار ہو کردہشتگردی کی وارداتوں میں ایندھن کا کام دیں گے۔خود بھی جلیں گے اور روٹس‘بیکن ہاﺅس‘سٹی‘فروبلزوالوں کو بھی جلا کر راکھ کردیں گے۔ خاص تعلیم جب عام نہیں ہوگی تو پھر عام لوگ خاص طرح کی نفسیات کا شکار ہوجائیں گے امن اور خوشحالی روٹھی ہی رہے گی!۔