Feb 21

Click here to View Printed Statements

سیاست کے کوچے میں سب سے زیادہ بے آبرو ہونے والی جنس خود سیاست ہی ہے۔ علم شہریت میں سیاستدان کی تعریف چاہے جو بھی ہو لیکن پاکستان کے اندر اس قبیلے کے لوگوں کا نام آتے ہی عہد شکن‘دروغ گو‘مکار‘ لٹیرا وغیرہ کے معنی دماغ میں گھومنے لگتے ہیں۔ ہر وہ لیبل جو تخریبی اور منفی رجحانات پر چسپاں کیا جاسکتا ہے وہ سیاست کاروں کے لئے مختص ہو کر رہ گیا ہے۔ جب مہذب انداز میں کسی کو گالی دینا ہو تو” آپ تو ٹھہرے سیاستدان“ ہی کہہ دینا کافی سمجھا جاتا ہے۔ چونکہ سیاست جمہوریت کے ذریعے نشوونما پاتی ہے اس لئے عوام عمومی طور پر مروجہ جمہوری نظام سے بھی بیزار دکھائی دیتے ہیں۔”سیاست میں کوئی مستقل دشمن یا دوست نہیں ہوتا“۔”سیاست میں ہر وقت دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں“۔ یہ اورایسی ہی توجیحات ہیں جن کو عوام سمجھتے تو ہیں لیکن انہیں اصولوں اور ضابطوں سے ماوراءجان کر دل سے قبول کرنے پر تیار نہیں ہوئے۔پاکستان میں پروان چڑھنے والی سیاست کو بے اصولی سیاست کے عنوان سے پکارا اور لکھا جارہا ہے لیکن کیا ایسی سوچ کے پختہ ہوجانے سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے مسائل کا کوئی حل نکل سکتا ہے؟ یہی وہ سوال ہے جس کا جواب دینے کے لئے مجھے مقامی کالج کے شعبہ سیاسیات کے طلبہ و طالبات نے دعوت دی تھی۔ میں نے اپنی تقریر کے آغاز سے قبل حاضرین سے سوال کیا کہ کیا آپ کی نگاہ میں اس وقت پاکستان کا کوئی ایک سیاستدان بھی ایسا نہیں جسے آپ اصول پسند سیاستدان کہہ سکتے ہوں۔طلباءپہلے تو شش وپنج کا شکار ہوئے پھر ایم اے کی ایک طالبہ نے کہا”میں سمجھتی ہوں کہ عمران خان ایک اصول پسند سیاستدان کے طور پر ابھر رہے ہیں“۔ تھوڑی دیرخاموشی طاری رہی اور پھر لڑکوں کی طرف سے بھی چند تائیدی کلمات سننے کو ملے ۔گوکہ چند طلباءنے میاں محمد نوازشریف کا نام بھی لیا اور بعض نے مرحومہ بے نظیر بھٹو کو اصول پسند قرار دیا لیکن اکثریت اس بات پر متفق دکھائی دی کہ عمران خان کی سیاست اصولوں کے گرد گھومتی ہے اور انہوں نے ابھی تک محض اقتدار کی خاطر کسی غیر اصولی موقف کی تائید کی اور نہ ہی کسی ایسے سیاستدان کا ساتھ دیا جس نے قومی مفادات کو کسی حوالے سے کوئی نقصان پہنچایا ہو۔
حاصل گفتگو یہ رہا کہ پاکستان کے مسائل کا حل صرف اور صرف اصولی سیاست میں ہی مضمر ہے ۔میرے لئے یہ حیران کن بات تھی کہ ایک پرائیویٹ کالج کے باشعور طلبہ و طالبات کی اکثریت عمران خان کو اصولی سیاستدان تسلیم کرتی ہے۔ میں نے اپنی حیرت کو ٹھوس حقائق کی کسوٹی پر پرکھنے کے لئے پورا ہفتہ نوجوانوں کی سیاسی سوچ پرکھنے پر لگایا۔
قارئین!مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ میرے سروے اور تجزیے کی رو سے پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت صرف اور صرف بے اصولی سیاست سے بیزار ہے۔اگر انہیں کوئی اصول پسند سیاستدان میسر آجائے تو وہ آج بھی قومی معاملات سے پہلوتہی کی بجائے مکمل شرکت داری کر سکتے ہیں۔گوکہ عمران خان کے بارے میں میرے ذاتی خیالات قدرے مختلف ہیں لیکن ہمیں بحیثیت قوم مطمئن رہنا چاہیے کہ ہماری نوجوان نسل کی اکثریت مستقبل کے پاکستان کو عمران خان کی نظر سے دیکھتے ہیں۔تجزیے میں بعض دلچسپ باتیں بھی سامنے آتی ہیں۔اکثر نوجوانوں کا خیال ہے کہ عمران خان نے کسی بھی قومی الیکشن میں اپنی پارٹی کے امیدواروں سے ٹکٹ کے بدلے رقم مانگی نہ ہی اپنی طرف سے پیسہ پھینکا۔ انتخابات کے دوران ووٹروں کی خریدوفروخت کے کلچر کو ختم کرنے کے لئے ہمارے قومی ہیرو نے کوئی منفی سرگرمی نہیں دکھائی۔عمران خان کے حق میں رائے دینے والے نوجوانوں کا یہ بھی خیال ہے کہ عمران پاکستان کے وہ واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنی آمدن اور جائیداد کا صحیح صحیح اندراج کرایا اور اس پر عائد پورے کا پورا ٹیکس ادا کیا‘ڈگری جعلی نہیں ہے اور وہ جو بات بھاٹی چوک میں کہتے ہیں وہی لندن میں بھی کہہ لیتے ہیں۔
یہ کہنا بہت مشکل ہے کہ عمران خان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا لیکن پاکستان کی کل آبادی کا چالیس فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ اب چونکہ ووٹر کی عمر کی حد اٹھارہ برس ہوچکی ہے اور اگر عمران خان کا پیغام ٹھیک طور سے ہمارے ان نوجوانوں تک پہنچ رہا ہے اور بوقت الیکشن یہ نوجوان واقعتاً پولنگ بوتھ کا رخ کر لیتے ہیں تو عمران خان کے ووٹ بینک میں واضح اضافہ دکھائی دے گا۔ہمارے مرشدمحترم نسیم انور بیگ فرماتے ہیں کہ قومی سوچ میںایسی تبدیلی کے ذریعے ہماری فیصلہ کرنے کی خودمختاری بحال ہوسکتی ہے۔آج کے عمران خان کے تعارف محض کرکٹ یا شوکت خانم ہسپتال نہیں رہا ۔اسلام اور پاکستان کی خوشبو میں گھندا ہواسیاسی فلسفہ بھی تعارف بنتا جارہا ہے۔متبادل سیاسی قیادت کا احساس ہی پاکستانی معاشرے کے لئے ایک صحت مندانہ نفسیاتی سفر ہے۔عمران کی سیاست دراصل مایوسیوں میں گھری قوم کے لئے ایک نئی امید ضرور ہے۔

written by deleted-LrSojmTM


Leave a Reply