Mar
14
|
Click here to View Printed Statements
پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک کیا ہے؟ ہر صاحب شعور پاکستانی اپنی زندگی میںکئی بار سوال اٹھاتا ہے لیکن کوئی شافی جواب نہ پا کر قلبی بے اطمینانی اور بے چینی کے دائمی مرض میںمبتلا ہوجاتا ہے۔ افراد ہی نہیں بڑے بڑے ادارے اسی سوال کو بنیاد بنا کر بحث و تمحیص کی لامتناہی نشستوں کا اہتمام کرتے رہتے ہیں۔ لیکن آج تک یا تو اس سوال کا کوئی قابل عمل حل پیش ہی نہیں کیاگیا یا پھر اگر کہیں کوئی جواب موجود ہے تو اسے عوام الناس کی طرف سے اجتماعی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ ہمارے عہد کے معروف قومی دانشور محترم نسیم انور بیگ کہتے ہیں کہ بعض اوقات جواب سے زیادہ سوال اہم ہوتا ہے۔ یہ اہم سوالات پوچھتے رہنا چاہیے ۔چاہے اس کا جواب کہیں سے بھی نہ ملے۔ شائد ایسے ہی کسی جذبے سے سرشار ہو کر راقم بھی اس سوال کو شعور کے لبادے سے سجا کر صاحبان علم و دانش کی خدمت میں پیش کرتا رہتاہے۔ پاکستانی سوچ کے حامل اصحاب رائے نے ”تھنکرز فورم“ کے نام سے افکار تازہ کا ایک دسترخوان سجا رکھا ہے۔ میری خوش قسمتی ہے کہ اس فورم نے مجھے بھی پاکستان کے اصل مسئلہ پر گزارشات پیش کرنے کا حکم دیا۔ہنگامہ زیست کی مصروفیات کے سبب میں مقررہ تاریخ پر حاضر تو نہ ہوسکا لیکن تحریری گزارشات بھجوا دی تھیں ‘ چاہتا ہوں کہ اپنے قارئین کی بھی نذر کروں۔
کہنے کو تعلیم بھی پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک ہے‘بعض دانشمندوں کے نزدیک اقتصادیات یعنی دولت کا حصول ایک بڑا مسئلہ ہے ۔ یہ سارے مسائل بنیادی ہیں ۔ لیکن یہاں معاملہ مرغی اور انڈے والا ہے۔ کیا انڈہ پہلے ہے یا مرغی؟ میرے نزدیک تمام مسائل کی بنیاد کسی معاشرے کی اجتماعی سوچ سے جڑی ہوئی ہے۔ سوچ ہی دراصل ارادے کا روپ دھارتی ہے اور پھر ارادے عمل میں ڈھلتے ہیں۔ جیسی سوچ ویسے ہی عوامل۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی خوبصورتی کیساتھ احاطہ فرمایا”اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے“۔ اگر پاکستان مسائلستان بن چکا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہماری سوچ الجھی ہوئی ہے۔فکر میں یکسوئی نہیں۔ اسی الجھاﺅ اور عدم یکسوئی کا نتیجہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم مسائل کو حل کرنے کے بجائے نت نئے مسائل کوجنم دے رہے ہیں۔ہمیں ہر حال میں چند متفقہ خیالات کو سوچ کا پہناوہ پہنانا چاہیے تاکہ ہمارے عوامل میں ہم آہنگی پیداہوسکے۔
ہم میں سے ہر آدمی اپنی نجی اور اجتماعی زندگی میں متفق ہے کہ معاشرہ بغیر انصاف کے قائم نہیں رہتا۔ پھر کیا سبب ہے کہ ہم اس اجتماعی اور متفقہ سوچ کو عمل میں ڈھلنے نہیںدیتے۔ نظام عدل کا خواب ہماری اجتماعی فکر کا آئینہ دار ہے۔ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ نظام عدل ہر سطح اور ہر طرح سے قائم دائم رہے۔ قانون کی حکمرانی۔ چاہے معاشرے کے تمام لوگ ان پڑھ ہوں یا پی ایچ ڈی‘ انصاف اور عدل سب کے لئے ہو۔غریب ہوں یا امیر انصاف کا ترازو ایک پلڑے سے کبھی محروم نہ کیا جائے۔ میرے نزدیک نظام عدل کسی بھی معاشرے کی پہلی اور آخری ضرورت ہے۔ عدل کی خواہش دراصل شعور کی اعلیٰ ترین سطح ہے اور اس لحاظ سے خدا کے فضل سے پاکستان کے اندر اہل شعور کی کمی نہیں۔ گاﺅں کا مفلس کسان بھی عدل مانگتا ہے ‘شہر کا بابو بھی انصاف کا خواہاںہے۔حد یہ کہ ظالمانہ اور غاصبانہ طرز زندگی کے رسیا لوگ بھی جب پھنس جاتے ہیں تو انصاف ہی کے طلبگار دکھائی دیتے ہیں۔بحریہ ٹاﺅن میں کارریس ہوئی۔ چندبدقسمت شائقین ہلاک ہوگئے۔ایک ملزم نے مرحومین کے لواحقین سے معافی نامہ حاصل کر لیا۔ اب وہ ملزم عدالت سے یہ استدعا کر رہا ہے کہ جب لواحقین اسے معاف کرچکے ہیں تو عدالت بھی اسے اس کیس سے بری کردے کہ قانون میں معافی کی گنجائش ہے۔گویا جو لوگ بظاہر طاقتور ہیں وہ بھی بوقت ضرورت عدالت اورعدل ک پناہ میں آنا چاہتے ہیں۔ اگر کوئی عدالتی نظام موجود نہ ہو توجائز حق بھی نہ مل سکے کیونکہ ہر بااثر آدمی سے بھی بڑا بااثرشخص موجود ہوتا ہے۔ آزاد عدلیہ کی عدم موجودگی میں صرف انارکی پھیلتی ہے اور افراد‘گروہ اور قومیتیں انصاف کے اپنے اپنے ترازو گاڑھ کر من مانے فیصلے کرتے ہیں۔ آپس میں بداعتمادی بڑھتی ہے۔دشمن اپنی کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یا تو ”طالبان “ جیسے لوگ حاوی ہوجاتے ہیں یا پھر ریاست ”پولیس اسٹیٹ“ بن جاتی ہے۔ اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ ردعمل کے نتیجے میں ریاستیوں کے پاﺅں اکھڑ جاتے ہیں۔میرے نزدیک پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک یہاں نظام عدل کا قیام ہے۔خدا کا شکر ہے کہ اس ملک میں نظام عدل کے قیام کا مقصد لیکر ایک سیاسی پارٹی بھی میدان میں اتری ہوئی ہے۔قرآن نے بار بار عدل اور انصاف پر زور دیاہے۔
عدل کرو۔یہ تقویٰ کے بہت قریب ہے۔(القرآن)
اللہ تم کو حکم کرتا ہے کہ امانتیں ان کے اصل مالکان کو لوٹا دو اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل کے مطابق فیصلے کرو۔اللہ تم کو اچھی تلقین کرتا ہے ۔ بے شک اللہ سمیع و بصیر ہے(القرآن)
رحمت اللعالمین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے نظام عدل کی بنیاد اسطرح بیان فرمائی ”خدا کی قسم! اگرمیری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے ہاتھ کاٹ دینے کا حکم جاری کرتا“
مزیدبرآں اسلامی تعلیمات ہمیں سکھاتی ہیں کہ معاشرہ کفر کی بنیاد پر تو زندہ رہ سکتا ہے مگر ظلم کی بنیاد پر نہیں۔
اگر ہم میں سے ہر صاحب شعور اس بات پر متفق ہوجائے کہ پاکستان اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جب تک یہاں ایک مربوط اور قابل عمل نظام عدل رواج نہیںپاتا تو پھر اصحاب رائے اور قانونی ماہرین اورا سلامی اسکالرز کو آمادہ کیاجائے کہ وہ سر جوڑ کربیٹھیں اور نظام عدل کاایک ماڈل تیار کریں۔مروجہ نظام کی تمام خوبیوں کو سمو لیاجائے اور کمی اور کوتاہی کی نشاندہی کرکے اس کے متبادل تصور کو سامنے لایا جائے۔ یہ کام حکومتوں کے نہیںبلکہ تھنک ٹینکس کے ہیں۔امریکہ کے اندر ہر شعبہ سے وابستہ ایسے تھنکرز فورم مصروف کار رہتے ہیں اورا ن کی سفارشات پالیسی ساز اداروں تک مسلسل پہنچتی رہتی ہےں۔پاکستان میں یہ کام شروع ہے لیکن ابھی تحقیق کے وہ مراحل سامنے نہیںآئے۔حالات جن کا تقاضا کر رہے ہیں۔مجھے پختہ یقین ہے کہ اگر ایک ماڈل نظام عدل دستاویز کی صورت میں سامنے لایا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل میں جو تحقیقی مقالات تیار ہوچکے ہیں ان سے بھی رہنمائی لی جائے۔پھر اس دستاویز کو انگریزی اور اردو زبان میں ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس تک پہنچا دیا جائے تو ہماری بعض بڑی سیاسی پارٹیاں اپنے انتخابی منشورمیں ایسی دستاویز کے مندرجات کو جگہ دے سکتی ہیں۔
ایک بار عوام کو یقین آجائے کہ ہمارے ملک کا نظام عدل مکمل اور قابل عمل ہے تو پھر اعتماد خود بخود اپنا راستہ بنا لے گا۔ آج بے یقینی اور لاتعلقی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عدالتوں کے اندر جا کر بھی انصاف کا حصول اس قدر مہنگا اور طویل ہے کہ لوگ اپنے معاملات کو عدالتوں میں لے جانے سے گریزاں دکھائی د یتے ہیں۔بھینس چوری کے مقدمے میں جیل کاٹنے والوں کی سزا قاتل کی سزا بعض ا وقا ت سے بڑھ جاتی ہے اور یوں حاکم او ر محکوم دونوں طبقے ہی ظالم اور مظلوم کی نفسیات سے پراگندہ رہتے ہیں۔
نظام عدل کے بعد دوسرا مرحلہ سماجی انصاف کا ہے۔سماجی انصاف دو طرح کا ہوتا ہے۔ایک یہ کہ ریاست اور فرد کے درمیان معاہدہ انصاف پر مبنی ہونا چاہیے۔اس سلسلے میں سوشل کنٹریکٹ کو از سرنو ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری خطبہ حج میں نہ صرف نظام عدل بلکہ ریاست اور فرد کے درمیان تعلق اورمعاہدے کی لازوال بنیادیں فراہم کردی تھیں۔آپ اس خطبہ کے نمایاںنکات کو ذہن میں لائیں تو آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ وسائل کی تقسیم کار کیا ہوگی۔حاکم اور عوام کے حقوق کیا ہوں گے۔ مذکورہ خطبے کو محور بنانے سے رنگ ‘نسل‘زبان اور علاقے کبھی سماجی انصاف میںرکاوٹ نہیں بنےں گے۔حکومت تمام شہریوں کے مال اور جان کے تحفظ کی ضمانت دے گی۔ اقلیتیں ہر طرح کے شہری حقوق کی اسی طرح حق دار ہوں گی جس طرح جا حق مسلمان اکثریت کو دیا گیا ہے۔اسلامی ریاست کا سربراہ بھی وہی کھانا کھائے گا جو عام شہری کھاتا ہے۔شہریوں کی بنیادی ضرورتیں ریاست کے ذمہ ہوں گی۔ ریاست اپنے عوام کی انفرادی اور اجتماعی ترقی اور انسانی تکریم کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو ہٹائے گی۔
سماجی انصاف کا دوسرا حصہ انسانوں کے آپس کے تعلقات کار ہیں۔گورے کو کالے پر ‘عربی کو عجمی اور امیر کو غریب پر کوئی فوقیت نہیں۔جو آقا پہنے گا وہی غلام پہنے گا۔آج آقا افسرمالک اور غلام ملازم کے معنوں میں دیکھا جانا چاہیے۔آج ریاست مدینہ کا نمونہ تو کہیں دکھائی نہیں دیتا لیکن یورپ کے بعض ممالک میں وہاں کا وزیراعظم اور سربراہ مملکت بھی عام شہری کی سی زندگی گزارتے دکھائی دیتے ہیں۔
سینئر صحافیوں کے ایک وفد کو سرکاری طور پر سویڈن بلایا گیا۔ ہمارے دوست اور لیتھونیا کے اعزازی کونسل جنرل جناب مسعود خان جو سویڈن میں کاروبار کرتے ہیں‘انہیں صحافیوں کے اس گروپ کو سویڈن کی سیر کرانے کی ذمہ داری سونپی گئی۔صحافی دستے نے خان صاحب سے مطالبہ کیا کہ سویڈن میں انہیں کوئی ”انوکھی“ جگہ دکھائی جائے۔صحافتی دستے کو ایک پرانے محلے میں لے جایا گیا۔ ایک گھر سے کہیں دور گاڑیاں روکی گئیں اور پیدل دوسری منزل کے ایک بوسیدہ مکان پر دستک دی گئی۔ اندر سے خاتون خانہ باہر آئیں اور دستک کاسبب پوچھا۔خان صاحب نے ان سے پوچھا کہ صاحب خانہ گھر پر ہیں‘جواب نفی میں ملا۔اس سارے عمل میں صحافی دوست خاصے نالاں سے دکھائی دیئے۔”آخر اس بوسیدہ محلے میں کونسی”انوکھی“چیز جسے آپ دکھانے لائے ہیں“۔
”اسی بوسیدہ گھر میں اس ملک کے وزیراعظم رہتاہے“۔ خان صاحب کا جواب سن کر صحافی ششدر رہ گئے۔
ہمارے ہاں سماجی انصاف انفرادی سطح پر بھی دکھائی نہیں دیتا۔ہمیں تو تعلیمات دی گئیں کہ وہ شخص ہرگز مسلمان نہیں ہوسکتا جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ اصحابہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمسائے کے حقوق پر اس قدر زور دیا کہ وہ ہم گھبرا گئے کہ کہیں ہمسائے کو وراثت میںحقدار ہی نہ ٹھہرایاجائے۔آپ لمبی تقریروں‘تعلیم کے حق میں لچھے دار بیانات اور انسانی حقوق کے فریب نعروں کو چھوڑیے۔دل پر ہاتھ رکھ کر سوچئے کہ اگر سماجی انصاف کے حوالے سے اسلامی تعلیمات کے صرف اس پروگرام پر عمل شروع کردیں‘تو ٹھیک پانچ برس کے اندر اندراس ملک میںنہ کوئی بھوکا رہے گا‘نہ ان پڑھ نظرآئے گا۔
برس ہا برس کے مطالعہ اور قرآن فہمی کی کوشش کے بعد راقم اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ حکومتوں پر تنقید کرنے اور لمبے چوڑے منصوبے بنانے کی بجائے اگر آج ہم چند لوگ بھی سماجی انصاف کا علم لے کرمحبت اور ایثار کے جذبے سے آگے بڑھیں اور صرف تحریک حقوق ہمسایہ بپا کردیں تو یہی ملک سویڈن سے کہیں بڑی ویلفیئر سٹیٹ بن جائے گا۔
آج کے سماج کو سیاسی سے زیادہ سماجی رہبروں کی ضرورت ہے۔ نظام عدل اور سماجی انصاف آپس میں باہم مربوط ہیں‘اگر ریاست نظام عدل رائج نہیںکرتی تو سماجی کارکن اور رہبر آگے بڑھ کر آپس کے سماجی انصاف کی ترغیبات سامنے لائیں۔
مجھے یقین ہے کہ ہم نہیں تو آنے والی نسلیں اس راز کو پالیں گی اور یاسیت کے بادلوں کو چیرکر امید کا روشن سورج ڈھونڈ نکالیں گی۔
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوزوساز
اس چمن کی ہر کلی باد صبا ہوجائے گی
شب گریزاں ہوگی آخر جلوہ خورشید سے !
یہ چمن معمور ہوگا پھر نغمہ توحید سے