Apr
16
|
Click here to View Printed Statement
امن جو ہر مہذب انسان کی خواہش بھی ہے اور ضرورت بھی انصاف کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتا۔ ناانصافی جس سطح اور وسعت کی ہو بدامنی بھی اسی مقدار اور حجم تک پہنچتی ہے۔ اگر بروقت اور مناسب انداز میں ظلم اور زیادتی کرنے والے ہاتھوں کو نہ پکڑا جائے اور ظالم کو قرار واقعی سزا نہ دی جائے
تو پھر معاشروں میں ظلم کا نظام مضبوط ہوتا جاتا ہے اور مظلوم ریاستی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹانے کی بجائے انتقام کے طریقے سوچنے لگتا ہے۔ انتقام کسی حدود وقیود میں نہیں رہتا اور اکثر بدامنی اور انارکی کی نہ ختم ہونے والی لہریں پیدا کرتا ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے انصاف کا کبھی بھی بول بالا نہیں ہوسکا۔ گزشتہ دور حکومت میں قدم قدم پر ناانصافیوں نے اپنے جھنڈے گاڑے ہیں اور مظلوم گروہوں اور طبقوں نے اب اپنی اپنی عدالتیں لگانے اور سزائیں سنانے کے راستے اختیار کر لئے ہیں۔
چند ایک واقعات کا سرسری جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح ہماری ریاست لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں دانستہ طور پر غافل رہی ہے۔ ہمارے سکیورٹی اداروں اور ایجنسیوں نے دہشتگردی کے الزام میں جن پاکستانی شہریوں کو گرفتار کیا انہیں کسی عدالت میں پیش کرنے کی بجائے نامعلوم مقامات پر قید کردیا۔ ”گمشدہ“ افراد کی بازیابی کیلئے ان کے عزیز واقارب برسوں سے آہ و بکا کر رہے ہیں لیکن کہیں ان کی شنوائی نہیں ہوئی۔ ساڑھے پانچ سو کے لگ بھگ ان شہریوں میں سے چند خوش قسمت تھے جنہیں معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں رہائی ملی لیکن اکثریت آج بھی ”گمشدہ“ ہے اور خدا جانے کس اذیت سے گزر رہی ہے۔ کیا ان مظلوم افراد کو عدالتوں میں پیش کئے بغیر ان کے عزیز واقارب سکھ کی نیند سوسکتے ہیں۔ ان کی دلدوز کہانی سن کر معاشرہ کس طرح پرسکون رہ سکتا ہے؟پاکستان کے چیف جسٹس کو جس لاقانونیت کا نشانہ بنایا گیا ہے اس سے اٹھنے والے مدوجذر تھمنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ آٹھ مارچ کا دن ہماری عدالتی تاریخ میں سیاہ باب بن کر درج ہوگیا ہے۔ اگر 12مئی کو کراچی میں ہونے والے ظلم کو ”عوامی قوت کا اظہار“ قرار دے کر قاتلوں اور بلوائیوں کی پیٹھ نہ ٹھونکی جاتی تو شائد کراچی میں آئندہ کسی کو آگ اورخون کا کھیل کھیلنے کی جرات نہ ہوتی۔ لیکن حیرت ہوتی ہے کہ شہریوں کو زندہ جلانے کی بھیانک واردات کو بھی ”عوامی ردِعمل“ کہہ کر جواز بخشنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اسی طرح خیبر سے کراچی تک جلاﺅ گھیراﺅ کا جو کھیل کھیلا گیاتھا اسے بھی محترمہ بےنظیر بھٹو کی شہادت کا ”فطرتی ردعمل“ قرار دے دیا گیا ہے۔ کیا مہذب معاشروں میں مجرموں کو کھلی چھوٹ دینے کی ایسی دیدہ دلیری سے داخلی استحکام حاصل کیاجاسکتا ہے۔ جرم کرنے والا کسی گروہ یا پارٹی سے تعلق رکھتا ہو‘ ریاستی آئین کے مطابق اس کی سرکوبی ضروری ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی مجرموں کو پناہ دے کر کبھی پاپولر نہیں بن سکتی۔ کیونکہ پبلک بہرحال امن چاہتی ہے اور غنڈہ گردی سے نجات پانا اس کی اولین ترجیح ہوتا ہے۔
اچھا ہوا کہ سابق وفاقی وزیر شیرافگن نیازی پرحملہ کرنے والے ہاتھوں کو بے نقاب کرنے کے لئے انتظامیہ حرکت میں آچکی ہے۔ اگر نیازی صاحب اپنے دور میں ناانصافی کو ناانصافی قرار دیتے اور ڈکٹیٹر شپ کے ہاتھ مضبوط کرنے کے لئے آئین پاکستان کی سراسر غلط تاویلات پیش نہ کرتے رہتے تو شائد ان پر انڈے اور جُوتے برسانے کا کوئی تصور بھی نہ کرتا۔ لیکن جن سادہ پوش لوگوں نے اس بزرگ سیاستدان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا ہے انہیں بہرحال انصاف کے کٹہرے میں لایا جانا ضروری ہے۔
اسلام ہمیں معاملات کرتے وقت توازن قائم رکھنے اور انصاف کے تمام تقاضے پورے کرنے کا حکم دیتا ہے قرآن پاک میں واضح ارشادات ہیں کہ:۔
اے ایمان والو! اللہ کیلئے انصاف کی گواہی دینے کیلئے کھڑے ہوجایا کرو۔ اور کسی قوم (گروہ) کی دشمنی کے باعث انصاف کو نہ چھوڑ دیا کرو۔ عدل کرو۔ یہی بات پرہیزگاری کے زیادہ قریب ہے ۔اور اللہ سے ڈرتے رہو۔اللہ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے(سورہ مائدہ) ۔ اللہ تمہیں حکم فرماتا ہے کہ جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو۔ اللہ اچھی نصحیت کرتا ہے تم کو ….بے شک اللہ سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔ (سورہ انسائِ)