Apr
02
|
Click here to View Printed Statements
وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان نے کرکٹ ڈپلومیسی کو کامیاب قرار دیتے ہوئے یہ یقین بھی ظاہر کردیا کہ پاکستان اور بھارت اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں کسی تیسرے فریق کی ضرورت نہیں۔آپ قارئین کو یاد ہوگاکہ سابق صدر جنرل پرویز کی حکومت نے آگرہ میں بے آبرو ہونے سے پہلے تواتر اور تسلسل کے ساتھ یہی خوشخبری سنائی تھی کہ اب پاکستان اور بھارت خود اس قابل ہوگئے ہیںکہ کشمیرسمیت تمام معاملات خود ہی حل کرلیں گے امریکہ یا کسی اور ملک کی طرف سے ثالثی کی قطعاً ضرورت نہیں ہے۔آگرہ میں جب بھارت عین وقت پر تمام عہدوپیمان بھول کر تحریر شدہ متفقہ مسودے سے مکر گیا تو کمانڈو صدر مایوسی کے عالم میں ہاتھ ملتے دکھائی دیئے اور پھر موہالی میں ادھموا ہونے تک ہم امریکہ ‘برطانیہ اور چین سمیت ہر ملک کو پکارتے رہے کہ وہ مسئلہ کشمیر حل کرانے میں ثالثی کی ذمہ داری پوری کریں۔
پاکستانی قوم کے لئے یہ حیرت ناک خبر ہے کہ حکومت پاکستان ایک بار پھر پرویز مشرف والے اس یقین کے ساتھ سرشار ہوگئی ہے کہ اب پاکستان اور بھارت اپنے مسائل خود حل کرسکتے ہیں۔ آخر موہالی میں میچ ہارنے کے علاوہ ایسا کونسا چمتکار ہوا ہے کہ مسئلہ کشمیر جیسے عالمی تنازعہ پر بھارت ایک بار پھر قابل اعتبار ہوگیا ہے؟ منموہن سنگھ‘سونیا گاندھی اور راہول گاندھی نے ایسا کونسا جادو کردیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کوبھی بھارتی قیادت کے منہ سے پھول جھڑتے دکھائی دیئے۔وزیراعظم کے لب و لہجہ سے خوشی یوں جھڑتی ہے گویا بھارتی قیادت نے کشمیر ان کی جھولی میں ڈال دیا ہے اور اب بس چند دنوں کی بات ہے جب ہماری قومی قیادت سرینگر کی ڈل جھیل میں کشتیاں چلا رہی ہوگی۔ تقسیم ہند کا ادھورا عمل آنکھ جھپکنے میں مکمل ہوجائے گا!
تفصیلات شائع ہوئی ہیں کہ منموہن نے جناب گیلانی کی طرف سے پاکستان کے دورے کی دعوت قبول کر لی ہے۔یہ بھی طے ہوا ہے کہ اب دونوں ممالک کے تجارت کے سیکرٹریز آپس میں ملیں گے۔1971ءکے کچھ قیدی بھی چھوڑ دیئے جائیں گے اور پاکستان کی قید میں سزائے موت کا ایک قیدی بھی شائد رہا کردیا جائے گا۔ہماری خاتون وزیر اطلاعات ونشریات نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت کو احساس ہوگیا ہے کہ معاملات صرف مذاکرات سے ہی حل کئے جاسکتے ہیں۔ہمارے حکمران خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں اور اس اظہار مسرت کے پیچھے یہ رازبھی بتایا جارہا ہے کہ بھارت نے بمبئی حملوں کے ملزموں کی حوالگی کا مطالبہ ترک کر دیا ہے۔ پاکستانی حکمرانوں کو سکھ کا سانس ملا ہے۔بتایا جارہا ہے کہ بھارت کی شہہ پر امریکہ کے بمبئی حملوں میں ہلاکت شدگان کے لواحقین کی طرف سے درج کرائے گئے مقدمے کی پیروی ختم ہوجائے گی اور یوں آئی ایس آئی کے سربراہ کسی ممکنہ گرفتاری سے بچ جائیں گے۔افواہ ہے کہ ان”انعامات “کی خاطر ہی ہماری قومی ٹیم نے سیمی فائنل میں چار کیچ چھوڑے اور ٹیسٹ میچ والی بیٹنگ کی تھی۔ مزید یہ افواہ بھی ہے کہ خطے میں بھارت کی بالادستی کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ موہالی کے گراﺅنڈ میں شکست کے بدلے ہی چندی گڑھ میں ہونے والے مذاکرات ”کامیاب“ہوئے۔
پنجاب کے وزیراعلیٰ نے پاکستانی کرکٹ ٹیم کی اس ”شاندار“کارکردگی پر نہ صرف یہ کہ استقبال کیا بلکہ ہر کھلاڑی کو پانچ پانچ لاکھ روپے بھی دیئے۔ وزیراعظم ہاﺅس میں ”قومی مفاد“ کا مظاہرہ کرنے والی اس بہادر ٹیم کو چائے پلائی جائے گی۔ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی کو قوم سے معافی مانگنے سے منع کردیا گیا ۔انہیں تھپکی دی جارہی ہے کہ انہوں نے بہت بڑا ”کارنامہ“ سرانجام دیا ہے اور ان کے حیرت انگیز کھیل نے دو ملکوں کو آپس میں پھر سے ملادیا ہے۔یہ پہلی بار ہے کہ بھارت سے ذلت آمیز شکست کے باوجود قومی ٹیم کو پھولوں اور نوٹوں کے ہار پہنائے جارہے ہیں۔مصباح الحق سے کسی نے نہیں پوچھا کہ اس نے ”ون ڈے“کو ”ٹیسٹ میچ“ کیوں بنایا۔کسی نے کیچ چھوڑنے والوں کا محاسبہ نہیں کیا۔قوم کوپہلے کرکٹ کا بخار چڑھایا گیااور اب تپتے جسم پر برف ملی جارہی ہے۔
یہ بھی پہلی بار ہواکہ بھارتی اخبارات نے پاکستانی ٹیم کو بدترین شکست کے باوجود بہترین الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا۔”وہ شکست کھاگئے لیکن ان کے سر فخر سے بلند ہیں“ ایسے ایسے ذومعنی جملے لکھے گئے کہ اپنی دانشمندی بھی ششدر کھڑی ہے۔
کھیل ہی کھیل میں پس پردہ طاقت نے پاکستانی حکومت کو بھارتی حاشیہ نشیبی پر بالآخر آمادہ کر لیا ہے اور مسئلہ کشمیر کامثلہ کرنے کی تیاریاں مکمل ہوگئی ہیں۔کشمیر کو ایک طرف رکھ کر خطے میں امریکی مفادات کے تحفظ کی خاطر آگے بڑھنے اور بڑھتے ہی چلے جانے کا ٹاسک دے دیا گیا ہے اب کشمیری اور ان کے رہنما ہزار قربانیاں دیتے رہیں۔ ان کے جواں سال بچے اس پاکستان کی خاطر کٹتے اور مرتے رہیں اور کشمیریوں کی زندگی جہنم بنی رہے ہم بھارت کے ساتھ تجارت کو بڑھائیں گے۔”دہشتگردی“ کیخلاف جنگ میں اکٹھے چلیں گے۔ سید علی گیلانی کی آواز صدا بصحرا ہی رہے گی۔کھیل ہی کھیل میں ہم نے ایک بار پھر کشمیر کو کھیل تماشہ بنا دیا ہے !یہ ہے ہماری قومی خودمختاری اور کشمیر سے محبت کا ایک اور مظاہرہ!