Apr
12
|
Click here to View Printed Statements
پاکستان میں بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ موسم سرما کی ٹھٹھرتی شاموں میں انگیٹھی کے سامنے بیٹھ کر ہم جس ”کاجو“ سے لطف اندوز ہوتے ہیں وہ بھارت نہیں بلکہ نائجیریا کی پیداوار ہے۔بادامی رنگت والا یہ خشک میوہ افریقہ کے سرسبزوشاداب ملک کے جنگلات میں خود روپودوں پر لگتا ہے ۔بھارت کے کاروباری لوگ کوڑیوں کے مُول یہ جنگلی جنس حاصل کرتے ہیں پھر اس کچے ”کاجو“ کو خاص درجہ حرارت پر بھونتے ہیں‘چھیلتے ہیں اور پیکٹوں میں ڈال کر پوری دنیا میں برآمد کرتے ہیں۔غریب آدمی نے تو شائد ساری زندگی اس پرلطف میوے کو کبھی چکھا بھی نہ ہو لیکن صاحب حیثیت لوگ جانتے ہیں کہ لاہور اور اسلام آباد کی مارکیٹوں میں کس بھاﺅ فروخت ہوتا ہے۔انڈیا کے کاروباری لوگ عرصہ دراز سے اس بزنس کے ذریعے کثیر دولت کمارہے ہیں۔
نائیجریا میں پاکستانی سفیر محترم جنرل (ر) آصف دریز اختر راقم کو کمال شفقت سے اپنے حلقہ یاراںمیں شمار کرتے ہیں۔گفتگو میں روانی اور تاثیر مخاطب کو مسلسل متوجہ کئے رکھتی ہے۔ اگر وہ خود اپنا تعارف افواج پاکستان کے حوالے سے نہ کرائیں تو انداز تکلمّ سے سپاہی نہیں بلکہ عالمی سطح کے سفارتکار دکھائی دیتے ہیں۔پاک فوج پر فخر ہونا چاہیے کہ اس کے دامن میں ایسے نفیس الطبع اہل دانش بھی موجود ہیں۔ گزشتہ ہفتے میرے دفتر تشریف لائے ان سے نائجیریا کے حوالے سے گفتگو ہوئی۔
جنرل صاحب کہہ رہے تھے ۔”کہ پاکستان میں عام تصور یہ ہے کہ نائجیریا اور افریقہ کا کوئی خطرناک سا خطہ ہے جہاں آدم خور بستے ہیں لیکن وہاں ڈیڑھ دو برس گزارنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ پاکستانی تاجر اس ملک میں لا محدود کاروباری مواقع سے فائدہ نہیں اٹھا رہے۔ نائجیریااور پاکستان کی آبادی تقریباً ایک جیسی ہے۔ نائجیریابھی پاکستان کی طرح برطانیہ کی نوآبادی رہی ہے اور اس کا فائدہ یہ ہے کہ انگریزی زبان آسانی سے بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ نائجیریا دنیا میں تیل پیدا کرنے والا چھٹا بڑا ملک ہے۔امریکہ میں پچیس فیصد تیل نائجیریا سے جاتا ہےِ۔حال ہی میں چین نے بڑے پیمانے پر اس دورافتادہ ملک میں سرمایہ کاری شروع کی ہے۔سڑکیں‘پل اور عمارتیں۔جدھر دیکھیں چینی انجینئرز اور محنت کش مصروف کار ہیں۔چینی کمپنیوں نے نائجیریا سے کیش کے بجائے آئل کی گارنٹی لی ہے۔ بین الاقوامی بینک ”گارنٹر“ کے طور پر یہ ڈیل کراتے ہیںِ۔چین آئندہ سو سال تک آئل کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے نائجیریا کی ترقی میں سرمایہ لگا رہا ہے۔جرمنی کی کمپنیاں طویل عرصہ سے موجود ہیں۔ ان کے ہیڈ آفس دارالخلافہ” ابوجہ“ میں موجود ہیں جبکہ آپریشنز شمالی اور جنوبی نائجیریا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ بھارت نے صرف ”کاجو“ کے کاروبار ہی نہیں بلکہ چاول‘آئی ٹی اور ایجوکیشن میں بھی سرمایہ کاری کی ہے۔ کس قدر افسوس اور دکھ کی بات ہے کہ پاکستانی چاول دبئی جاتا ہے اور دبئی سے انڈین کمپنیاں یہی چاول خرید کر اپنے ناموں کے لیبل لگا کر نائجیریا برآمد کر رہی ہیں۔پاکستانیوں کو علم ہے کہ چاول براہ راست نائجیریا بھیجنے میں بہت زیادہ منافع ہے‘لیکن پاکستانی تاجر ”روٹین“ سے آگے بڑھتے ہی نہیں۔ہمارے ہاں نئی منڈیاں تلاش کرنے کی جستجو بھی نہیں۔ہم ہر بار مغربی اور امریکی منڈیوں کی طرف لپکتے ہیں اور بھارت اور چین نائجیریاجیسے ملک سے ہر سال اربوں ڈالر کما رہے ہیںِ۔بھارت کی نائجیریامیں درآمد دس ارب ڈالرز ہے جبکہ پاکستان کی صرف تین سو ملین ڈالرز!
نائجیریا کے عام لوگ شائد پاکستان کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے۔ہماری کبھی وہاں کوئی تجارتی نمائش بھی نہیں ہوئی۔”ابوجہ“ کے اعلیٰ افسران پاکستان کے بڑے مداح ہیں۔ کسی دور میں پاکستان سے ڈاکٹرز‘انجینئرز اور ٹیچرز اس ملک میں آئے تھے۔ وہاں ان لوگوں نے بڑی محنت کی۔ نائجیریاکے پڑھے لکھے لوگ اب بھی اپنے پاکستانی ٹیچرز‘ڈاکٹرز اور انجینئرز کا ذکر محبت سے کرتے ہیں۔
نائجیریا کوئی خشک یا بنجر ملک نہیں ہے۔وہاں کی زمین انتہائی زرخیز ہے ۔ شکرقندی کی مانند کی ایک فصل ”ییم“ بہتات میںپائی جاتی ہے۔ چھ ماہ بارش کا سلسلہ چلتا ہے اور چھ ماہ دھوپ تمازت دیتی ہے۔”ییم“ایک بار بودیں تو کئی کٹاﺅ دے دیتی ہے۔ نائجیریا کے عام لوگ اسے پیس کر آٹا بناتے ہیں اور اسی سے سالن تیار کرتے ہیں۔شائد دنیا میں سب سے زیادہ مونگ پھلی بھی یہیں ہوتی ہے۔مونگ پھلی بوتلوں میں ڈال کر بیچی جاتی ہے۔ نائجیریا کے کیلے کا سائز بالشت بھر ہوتا ہے۔عام لوگ اسے سبزی کے طور پر پکاتے ہیںِ۔شکرقندی‘مونگ پھلی اور کیلے وغیرہ کو ”پراسس“ کرکے بہت سازرمبادلہ کمایا جاسکتا ہے۔
نائجیریا ایسا ملک ہے جو اپنے استعمال کی تمام اشیاءبیرونی ممالک سے درآمد کرتا ہے‘اس ملک سے صرف وہی کاروباری لوگ فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کے اندر محنت اور مہارت کے ذریعے دولت اور عزت کمانے کا جذبہ ہو۔ نائجیریا کا معاشرہ ابھی تعمیر کے عمل سے گزر رہا ہے۔وہاں معاملات میں پیچیدگیاں بھی ہیں لیکن اگر ہمارے چیمبرز آف کامرس اور بڑے صنعتی اور مالی ادارے تہیہ کر لیں تو صرف نائجیریاکے ذریعے ہی ہم اپنا برآمدی ہدف پورا کرسکتے ہیں۔شرط صرف ہمت کی ہے‘خدا کی مدد بھی میسر ہوجائے گی!