May 13

Click here to View Printed Statement

بڑے دِل گُردے کی بات ہے۔دہشتگردی نے کتنے گھر اُجاڑ دیئے۔کوئی مقام ایسا نہیں جہاں خون نہ بہایا گیا ہو۔خون بہانے والے کھل کر کھیلے اور آئندہ بھی شائد وہ غارت گری کی اسی راہ پر چلتے رہیں۔کوئی بھی ایسی سیاسی پارٹی نہیں جس کے جسد کو بموں اور گولیوں نے چھلنی نہ کیا ہو۔کوئی بڑی سیاسی شخصیت ایسی نہیں جسے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر خوف میں مبتلا نہ کیاگیا ہو۔عام پاکستانی جلسے جلوس میں جانے سے پہلے کئی بار سوچتا رہا کہ وہ واپس آئے گا بھی یا نہیں۔انتخابات کی گہماگہمی اوربموں کی پوچھاڑ ساتھ ساتھ چلتی رہی۔بمبار ہارے نہ ہی عوام نے حوصلہ چھوڑا۔اتنے بڑے خطرات مُول لیکر اس انتخابی نظام میں لوگ آخر کیوں حصہ دار بنے۔

Continue reading »

written by

Apr 22

Click here to View Printed Statement

وہ کس قدرمتکبر تھا’ خود اسے بھی اپنے تکبر کی حدود کا علم نہیں تھا۔اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون بن جاتا تھا۔ اس کے اشارہ ابرو سے مملکت میں ہلچل مچ جاتی تھی۔ وہ دن کے وقت طاقتور اور رات کے عالم میں انتہائی طاقتور ہوجاتا تھا۔سگار’کافی اور گلاس اس کا شوق تھے’ساغرومینا اس کے سامنے دست بستہ رہتے تھے۔ اس نے ریفرنڈم کرایا تو رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی کہیں زیادہ ووٹ اس کے حق میں پڑتے تھے۔اس نے روشن خیالی کے نام پر ہر اچھے اور صالح خیال کا گلا گھونٹا۔

Continue reading »

written by

Apr 10

Click here to View Printed Statement

ہم کاروبار اس لئے کرتے ہیں تاکہ منافع کما سکیں اور اپنی روزمرہ ضروریات کو پورا کرتے ہوئے بہتر سے بہتر معیار زندگی حاصل کرسکیں۔شائد ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ہو جوخسارے کے لئے کاروبار کرتا ہو۔اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کاروبار سے منافع نہ کمایا جائے بلکہ منافع کا جذبہ ہی کاروبار یا تجارت کی کامیابی کا بنیادی سبب ہے۔ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دولت کے دس حصوں میں سے نو حصے کاروبار یا تجارت میں رکھ دیئے ہیں۔ جو شخص کاروبار کرتا ہے وہ دراصل رب العالمین کی ربوبیت کے کارعظیم میں حصہ بھی ڈالتا ہے۔ارتکاز دولت کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی کاروبار ہی ہے کہ اس عمل میں انسان اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ چلنے والوں کے لئے بھی کماتا اور تگ و دو کرتا ہے۔

Continue reading »

written by

Mar 19

Click here to View Printed Statement

سیاسی پارٹیاں ابھی انہیں اپنے لئے کوئی خطرہ نہیں سمجھتیں۔ابھی حفظ مراتب اور وضع داری غالب ہے۔ڈاکٹر صاحب ہر محفل میں بڑی سیاسی پارٹیوں کے نظریاتی قلعوں پر اپنے فکری میزائل داغتے ہیں لیکن چونکہ نشانے خطا جارہے ہیں اور مسلمہ سیاسی قائدین کو ان پھلجھڑیوں سے کوئی خاص کوفت نہیں ہوتی اس لئے وہ ڈاکٹر صاحب کو بزرگی اور بڑائی کا فائدہ دے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں اس دن سے ڈرتا ہوں جب ڈاکٹر صاحب اپنی نوزائیدہ پارٹی کے کسی ٹکٹ ہولڈر کے جلسے میں جا کر پی پی پی’ ن لیگ’ ایم کیو ایم یا اے این پی کی قیادتوں کے خلاف بارود اگلیں گے اور جواب میں خدا جانے کتنے پتھر سہنے پڑ جائیں گے۔ تب تقدس کی چادر تار تار ہوجائے گی اور دنیا کہے گی کہ دیکھو پاکستانی سیاست دان محسن پاکستان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔

Continue reading »

written by

Mar 05

Click here to View Printed Statement

تینوں چیف متفقہ طور پر قوم کو یقین دلا چکے ہیں کہ انتخابات ہر حال میں ہو کر رہیں گے۔ چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ لوگ ایسے خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیں جن میں انتخابات کے التواء کے حوالے سے کوئی جھلک ہو۔آرمی چیف نے فوجی لب ولہجے کی قطعیت کے ساتھ ایک بار پھر واضع کردیا ہے کہ قوم جس طرح کے چاہے نمائندے منتخب کرے’فوج جمہوریت کا ساتھ دے گی۔ چیف الیکشن کمیشن کے دفتر کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں اور وہ کراچی میں غیر لسانی بنیادوں پر انتخابی حلقہ بندیوں میں پھر سے مصروف ہوگئے ہیں۔تینوں چیف کی متواتر یقین دہانیوں کے بعد محترم طاہر القادری کی طرف سے انتخاب کے انعقاد کو حقیقت کے طور پر قبول کر لیاگیا ہے

Continue reading »

written by

Dec 20

Click here to View Printed Statement

حاجیوں کو سہولتیں فراہم کرنے کے لئے آل سعود ہمہ تن مصروف عمل رہتی ہے ۔بیت اللہ اور مسجد نبویۖ کی توسیع کا عمل جاری رہتاہے۔طواف کعبہ کے لئے آسانیاں فراہم کی جارہی ہیں۔ سعودی عرب کے حکمران یوں تو بادشاہ ہیں لیکن امت مسلمہ کے لئے ان کا مقام اور احترام اس قدر بلند وبالا ہے کہ ہم انہیںخادمین حرمین شریف کے لقب سے پکارتے ہیں۔ ان کے اس ارفع مقام کا واحد سبب یہ ہے کہ وہ کعبة اللہ اورمسجد نبویۖ کی خدمت پر مامور رہتے ہیں۔ہم دعا گو ہیں کہ اللہ آل سعود کی حکمرانی کو دوام بخشے اور جمہوریت کے نام پر ان کے خلاف آئے روز ہونے والی سازشوں کوناکام فرمائے۔ مسلم دنیا میں واحد اسلامی مملکت ہے جس کو ہم فلاحی اسلامی ریاست کہہ سکتے ہیں۔ خدا جانے نمونے کی اس ماڈل ویلفیئر اسٹیٹ کومظاہروں کے ذریعے غیر مستحکم کرنے والے خفیہ ہاتھ کیا چاہتے ہیں۔

Continue reading »

written by

Jul 25

Click here to View Printed Statement

کہا جاتا ہے کہ اگر مواقع اور اہلیت باہم مل جائیں تو پھر کامیابی یقینی ہوجاتی ہے۔ ہم اپنے اردگرد اس فارمولے کو بنیاد بنا کر جائزہ لیں تو ہمیں احساس ہوگا کہ ہر سماج اور معاشرے میں ایسے افراد کی بے شمار تعداد ہے جن میں صلاحیت ہے لیکن موقع نہیں ملتا اور کئی ایسے افراد ہیں جن کے پاس مواقع تو موجود ہیں لیکن ان میں صلاحیت نہیں ہے جس کے باعث وہ معاشرے کے ناکام یا ناکارہ افراد کہلاتے ہیں۔ مواقع پیدا کرنا تاکہ اہل افراد ان مواقع سے فائدہ اٹھا کر کامیابیاں حاصل کریں اور معاشرہ مجموعی طور پر متحرک ہوسکے ایک اہم ترین سماجی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح بے صلاحیت افراد کی ایسے خطوط پر تربیت کرنا کہ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جاسکے۔یہ بھی برابر کی اہم سماجی ذمہ داری ہے۔

Continue reading »

written by

Jun 16

Click here to View Printed Statement

دولت کی چمک سے بچنا محال ہوجاتا ہے۔ جو لوگ دام پھینک کر وفاداریاں خریدنے کا دھندہ کرتے ہیں ان کو یقین کامل ہوتا ہے کہ ہر انسان کی ایک قیمت ہوتی ہے۔کامیاب بیوپاری وہ ہوتے ہیں جو بندے کے ماتھے اور آنکھوں سے بھانپ لیتے ہیں کہ ان کے مخاطب کی قیمت کیا ہوگی۔ رشوت لینا اگر ایک فن ہے تو رشوت دینا بہت بڑا فن ہے۔ہرکوئی صاحب ثروت رشوت دینے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ اس کار شیطانی کے لئے مہارت درکار ہوتی ہے ۔

Continue reading »

written by

Feb 21

Click here to View Printed Statements

جب سے امریکی کانگریس کی کمیٹی میں بلوچستان کے اندر انسانی حقوق پر ”تشویش“ بھری بحث ہوئی ہے پاکستان کے محب وطن حلقوں میں ایک سراسمیگی سی پھیل گئی ہے۔سقوط ڈھاکہ کے ڈسے ہوئے پاکستانی خوفزدہ ہیںکہ پاکستان کے سقوط کی اب ایک اور عالمی سازش ترتیب پا رہی ہے اور اب کی بار شائد اس گھناﺅنی سازش کا مرکز و محور ماسکو کی بجائے واشنگٹن ہے۔امریکی کانگریس کمیٹی میں پاکستان کے کسی علاقے کے بارے میں باقاعدہ بحث ہونا اس لحاظ سے شرمناک ہے

Continue reading »

written by