May 22

Click here to View Printed Statement

بے پناہ اور اکثر اوقات غیر ضروری معلومات تک بہ آسانی رسائی نے ہر بالغ پاکستانی کو مستقل ناقد بنا دیا ہے ۔ جس کو دیکھو جہاں دیکھو تنقید ہی تنقید ہورہی ہے۔ اس تنقیدی فضا کا نقصان بہت ہورہا ہے۔ اور وہ نقصان یہ کہ آج کا کوئی بھی بالغ پاکستانی کسی پر کسی طرح کا اعتماد کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کی ذہنی کیفیت ایسی ہوگئی ہے کہ خود فرد کو اپنے کئے ہوئے عمل پر بھی اعتماد نہیں رہا۔
بداعتمادی نئے نئے طرزکے رَدِعمل سامنے لارہی ہے۔ہم نے جن کو ووٹ دیئے ہمیں ان کی صلاحیتوں پر اعتماد نہیں ۔ ہم نے جن کیخلاف ووٹ ڈالا ان کی مخالفت پر شک ہے۔ بے یقینی ایسے پھیلی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اس سب سے عظیم مخلوق کی’’ By Default‘‘ قسم کی خوبیوں پر بھی یقین نہیں رہا۔آگ جلاتی ہے اس کا یقین ہے‘پانی بہاتا ہے اس پر بھی یقین ہے‘مٹی اگاتی ہے اس کا بھی یقین ہے لیکن انسان بہتری لاسکتا ہے‘بگڑے معاملات سنوار سکتا ہے‘اصلاح احوال کرسکتا ہے

Continue reading »

written by

May 13

Click here to View Printed Statement

بڑے دِل گُردے کی بات ہے۔دہشتگردی نے کتنے گھر اُجاڑ دیئے۔کوئی مقام ایسا نہیں جہاں خون نہ بہایا گیا ہو۔خون بہانے والے کھل کر کھیلے اور آئندہ بھی شائد وہ غارت گری کی اسی راہ پر چلتے رہیں۔کوئی بھی ایسی سیاسی پارٹی نہیں جس کے جسد کو بموں اور گولیوں نے چھلنی نہ کیا ہو۔کوئی بڑی سیاسی شخصیت ایسی نہیں جسے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر خوف میں مبتلا نہ کیاگیا ہو۔عام پاکستانی جلسے جلوس میں جانے سے پہلے کئی بار سوچتا رہا کہ وہ واپس آئے گا بھی یا نہیں۔انتخابات کی گہماگہمی اوربموں کی پوچھاڑ ساتھ ساتھ چلتی رہی۔بمبار ہارے نہ ہی عوام نے حوصلہ چھوڑا۔اتنے بڑے خطرات مُول لیکر اس انتخابی نظام میں لوگ آخر کیوں حصہ دار بنے۔

Continue reading »

written by

May 02

Click here to View Printed Statement

بچے بڑوں سے ہی سیکھتے ہیں۔پیروکار اپنے لیڈروں اور رہنمائوں سے رنگ پکڑتے ہیں۔پیروکاروں کے مزاج اور طرز تکلم سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا لیڈر کیسا ہوگا اور لیڈر کے رویے اور انداز گفتگو سے اس کے پیروکاروں کی ذہنی کیفیت کا اظہار ہوجاتا ہے۔آجکل فیس بک پر سیاسی تنازعات اور فکری اختلافات کے حوالے سے ایسا ایسا مواد سامنے آرہا ہے کہ پبلک ٹائلٹس پر لکھی تحریریں بھی شرما جائیں۔نوجوانوں کی ایک سیاسی پارٹی نے تو انتہا کردی ہے۔وہ مخالف سیاسی تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں پر باقاعدہ حملہ آور ہوتے اور دشنام طرازیوں کے ساتھ یلغار کرتے ہیں۔طفلان انقلاب کا تعلق پسماندہ طبقات سے نہیں کہ وہ تہذیب اور سلیقہ کی ہر حد کو پھلانگ جائیں بلکہ زیادہ تر مڈل کلاسیے ہیں

Continue reading »

written by

May 01

Click here to View Printed Statement

ایسا بزدل نکلا۔کمانڈو ایسے ہوتے ہیں؟میرے بہت سے قومی بھائی کمانڈو ہیں۔ایس جی کمانڈوز۔کیا چیتے کی پھرتی ہوتی ہے ان میں۔آنکھوں سے شعلے اگلتے ہیں۔دشمن پر جھپٹتے اور بے بس کردیتے ہیں۔وہ موت کا تعاقب کرتے ہیں۔پاکستانی فوج کے کمانڈو کا نام سن کر موت خوفزدہ ہوجاتی ہے۔ہماری بہادر مسلح فوج اپنے کمانڈو کو ایسے تربیتی ماحول سے گزارتی ہے کہ جسم ہی نہیں ذہن بھی لوہا بن جاتے ہیں۔انہیں مستقبل کے خوف ڈرا نہیں سکتے۔وہ واقعتاً کسی سے نہیں ڈرتے۔پاکستانی کمانڈوز کی تربیت اسلامی تعلیمات کے مطابق کی جاتی ہے۔وہ کسی بے گناہ کا قتل نہیں کرتے۔کسی بچے کسی عورت کی جان نہیںلیتے۔وہ کسی مظلوم مہمان کو گرفتار کرکے دشمنوں کے آگے بیچتے نہیں۔وہ اپنے قومی وقار پر حرف نہیں آنے دیتے۔

Continue reading »

written by

Apr 22

Click here to View Printed Statement

وہ کس قدرمتکبر تھا’ خود اسے بھی اپنے تکبر کی حدود کا علم نہیں تھا۔اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون بن جاتا تھا۔ اس کے اشارہ ابرو سے مملکت میں ہلچل مچ جاتی تھی۔ وہ دن کے وقت طاقتور اور رات کے عالم میں انتہائی طاقتور ہوجاتا تھا۔سگار’کافی اور گلاس اس کا شوق تھے’ساغرومینا اس کے سامنے دست بستہ رہتے تھے۔ اس نے ریفرنڈم کرایا تو رجسٹرڈ ووٹوں سے بھی کہیں زیادہ ووٹ اس کے حق میں پڑتے تھے۔اس نے روشن خیالی کے نام پر ہر اچھے اور صالح خیال کا گلا گھونٹا۔

Continue reading »

written by

Apr 19

Click here to View Printed Statement

کائنات کا دولھا انسان اللہ پروردگار عالم کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے۔ رب کائنات نے اسے نعمتوں کے اتنے انبار عطا فرما دیے کہ جنہیں دیکھ کر ذرا سا غور کرنے پر ہمیں اللہ نظر آنے لگتا ہے۔ اللہ خود اپنے کلام میں فرماتا ہے”تمہارے نفوس میں میری نشانیاں موجود ہیں تو کیا تم ان پر غور نہیں کرتے“۔

Continue reading »

written by

Apr 10

Click here to View Printed Statement

ہم کاروبار اس لئے کرتے ہیں تاکہ منافع کما سکیں اور اپنی روزمرہ ضروریات کو پورا کرتے ہوئے بہتر سے بہتر معیار زندگی حاصل کرسکیں۔شائد ہی دنیا میں کوئی ایسا شخص ہو جوخسارے کے لئے کاروبار کرتا ہو۔اصل مسئلہ یہ نہیں کہ کاروبار سے منافع نہ کمایا جائے بلکہ منافع کا جذبہ ہی کاروبار یا تجارت کی کامیابی کا بنیادی سبب ہے۔ ایک حدیث مبارکہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دولت کے دس حصوں میں سے نو حصے کاروبار یا تجارت میں رکھ دیئے ہیں۔ جو شخص کاروبار کرتا ہے وہ دراصل رب العالمین کی ربوبیت کے کارعظیم میں حصہ بھی ڈالتا ہے۔ارتکاز دولت کو ختم کرنے کا ذریعہ بھی کاروبار ہی ہے کہ اس عمل میں انسان اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے ساتھ چلنے والوں کے لئے بھی کماتا اور تگ و دو کرتا ہے۔

Continue reading »

written by

Apr 08


Click here to View Printed Statement

بچے اللہ کے پھول  ہوتے ہیں۔پھول اور خوشبو کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔جہاں پھول ہوں وہاں خوشبو ضرور ہوتی ہے۔ اگر بچوں کے دل و دماغ میں اسلام اور پاکستان کا نظریہ بو دیا جائے تو ان کی زندگیوں میںہمیشہ اس نظریہ کی خوشبو آتی رہے گی۔ جتنا نظریہ پختہ اسی قدر خوشبو کا اثر دیرپا اور جس قدر بچوں کی تعداد زیادہ اسی قدر خوشبو کا پھیلائو وسیع۔ اگر نظریاتی خوشبو چہار سو پھیل جائے توپھر سیکولرازم اور بھارت بوچا کی بدبو کو کہاں جگہ ملے گی۔ اور اگر ملے گی بھی تو ان محدود ذہنوں  میں مقید ہوجائے گی جن ذہنوں کے اندر کردار’ غیرت’ یوم آخرت اور انصاف پسندی کی کوئی اہمیت ہے ہی نہیں ۔

Continue reading »

written by

Apr 08

Click here to View Printed Statement

سابق طالب علم رہنما اور ضیاء الحق مرحوم کی آمریت کیخلاف آواز بلند کرنے کے جرم میں قید اور تشدد سہنے والے شفاف سیاست کے ماتھے کا جھومر لیکن آج کی لوٹ مار کی سیاست میں مکمل طور پر ”نااہل” ہمارے دوست محترم ناصر مغل صاحب جب موجودہ حالات کی سنگینی سے اکتا جاتے ہیں توتڑپ کر پوچھتے ہیں”’مرتضیٰ بھائی نیک لوگ کب آئیں گے؟۔یہ وہ سوال ہے جو ہر سچے انسان اور کھرے پاکستانی کے ذہن میںکُلبلاتا رہتا ہے۔ اس بنیادی سوال کا جواب دینے کے لئے انفرادی اور اجتماعی طور پرہر دور میں کوشش کی گئی ہے۔روز اول سے صالح اور نیک سیرت لوگوں کی یہی خواہش رہی ہے کہ ان کے حاکم وہ لوگ ہوں جو ایمانداری اورصلاحیت کے معیار پر پوراتریں امین ہوں’ نوع انسانی سے محبت کریں اور عوام کی مشکلات بڑھانے کی بجائے کم کریں۔قرآن حکیم نے ایسی صالح قیادت کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا”’اور جب انہیں زمین پر اقتدار دیا جاتا ہے

Continue reading »

written by

Mar 26

Click here to View Printed Statement

ہمیںپی پی حکومت کا مشکور ہونا چاہیے کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کی سالگرہ سرکاری طور پر منانے کا اہتمام ہوا ہے۔
گزشتہ 65 برسوں میں ہم نے اتنے قائد بنا لئے ہیں کہ اپنے اصل قائد کو بھول ہی گئے ہیں۔ بلکہ آمریتوں کے ادوار میں جان بوجھ کر قائداعظم کی سالگرہ اور برسیوں پر خاموشی اختیار کی گئی۔ پرویز مشرف کے دور میں آمریت کے کاسہّ لیس اورشاہ سے زیادہ شاہ کے وفاداروںنے پاکستان کے کرنسی نوٹوں سے بانی پاکستان کی تصویر ہٹا کر جنرل پرویز کی تصویر لگانے کا پورا منصوبہ بنالیا تھا۔ نمونے کے طور پر ایسے نوٹ تیار بھی ہوگئے تھے۔آج بھی قائداعظم کی ذات اور ان کے افکار کو متنازعہ بنانے کا ٹھیکہ لنڈا بازار کے دانشوروں کو دے دیا گیا ہے۔ ایسی ایسی بولیاں سنائی گئیں کہ کان پھٹنے کو آگئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ مسلمانان ہند نے یہ ملک مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ چند امریکی غلاموں کی ناجائز خواہشوں کی بارآوری کیلئے بنایا تھا۔
”پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ اللہ” والے نعرے کا تمسخر اڑایا جارہا ہے۔ اسلام کا حوالہ مٹانے کی ہر کوشش کی جارہی ہے۔ ایک گروپ نے امریکیوں کے اشارے پر ”اسلامی جمہوریہ پاکستان” میں سے اسلام کا لفظ حذف کرنے کی رٹ لگانا شروع کررکھی ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہمارے دوست کالم نگار بیگ راج نے کہیں لکھ دیا ہے ”اگر آج قائداعظم زندہ ہوتے…” تو بگرام ایئربیس پر امریکیوں کی قید میں ہوتے”

Continue reading »

written by

Mar 19

Click here to View Printed Statement

سیاسی پارٹیاں ابھی انہیں اپنے لئے کوئی خطرہ نہیں سمجھتیں۔ابھی حفظ مراتب اور وضع داری غالب ہے۔ڈاکٹر صاحب ہر محفل میں بڑی سیاسی پارٹیوں کے نظریاتی قلعوں پر اپنے فکری میزائل داغتے ہیں لیکن چونکہ نشانے خطا جارہے ہیں اور مسلمہ سیاسی قائدین کو ان پھلجھڑیوں سے کوئی خاص کوفت نہیں ہوتی اس لئے وہ ڈاکٹر صاحب کو بزرگی اور بڑائی کا فائدہ دے کر آگے بڑھ رہے ہیں۔ میں اس دن سے ڈرتا ہوں جب ڈاکٹر صاحب اپنی نوزائیدہ پارٹی کے کسی ٹکٹ ہولڈر کے جلسے میں جا کر پی پی پی’ ن لیگ’ ایم کیو ایم یا اے این پی کی قیادتوں کے خلاف بارود اگلیں گے اور جواب میں خدا جانے کتنے پتھر سہنے پڑ جائیں گے۔ تب تقدس کی چادر تار تار ہوجائے گی اور دنیا کہے گی کہ دیکھو پاکستانی سیاست دان محسن پاکستان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔

Continue reading »

written by

Mar 12

Click here to View Printed Statement

”شوگر سے شوگر نہیں ہوتی۔انسانی جسم میں ایک خاص حد تک ہی شوگر جذب ہوسکتی ہے۔ اس قدرتی حد سے بڑھیں گے تو انسانی نظام ہضم خود بخودا کتاہٹ محسوس کرنے لگے گا۔ یہ محض ڈاکٹروں کا پراپیگنڈہ ہے کہ چینی کھانے سے شوگر کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے۔ اس بیماری کے اسباب کچھ اور ہیں لیکن عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے یہ سستاسا نسخہ گھڑلیا گیا ہے”۔
ملاقات شروع ہی ہوئی تھی کہ سکندر خان اپنے دبنگ لہجے میں شوگر انڈسٹری کو نقصان پہنچانے والے سرکاری اور غیر سرکاری اقدامات کا احاطہ کرنے لگے۔آل پاکستان شوگر ایسوسی ایشن کے سابق صدر اورخیبرپختونخواہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق چیئرمین سکندر خان معروف صنعت کار گھرانے کے چشم وچراغ ہیں۔ انہوں نے پاکستان کے صنعت کاروں کے اندر حکمرانوں کے سامنے بات کرنے کا حوصلہ پیدا کیا ہے اور وہ قومی سطح کے متعدد فورموں پر صنعت کاروں کے مسائل اور پریشانیوں سے پالیسی ساز اداروں کے سربراہوں کو آگاہ کرتے رہتے ہیں۔

Continue reading »

written by

Mar 12

Click here to View Printed Statement

JANG LAHORE IQRA PAGE

کہا جاتا ہے کہ دور جاہلیت میں عورت اللہ تعالیٰ کی مظلوم مخلوق تھی۔معاشرے میں اسے سخت حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ طرح طرح کے توہمات اس کی ذات کے ساتھ وابستہ کئے جاتے تھے۔گھروں میں باندیوں سے بدترسلوک اس کا مقدر تھا۔ سوسائٹی میں رائے مشورے اور تنقید و احتساب کا حق اسے قطعاً نہ تھا۔ بیویوں کی تعداد پر کوئی پابندی عائد نہ تھی۔وراثت میں بھی اس کا حصہ نہ تھا۔زندگی کے کسی شعبے میں بھی اس کی شہادت قابل قبول نہ تھی۔ حد تو یہ ہے کہ پیدا ہوتے ہی عورت کو زندہ قبر میں گاڑھ دیا جاتا تھا۔

Continue reading »

written by

Mar 05

Click here to View Printed Statement

تینوں چیف متفقہ طور پر قوم کو یقین دلا چکے ہیں کہ انتخابات ہر حال میں ہو کر رہیں گے۔ چیف جسٹس نے فرمایا ہے کہ لوگ ایسے خواب بھی دیکھنا چھوڑ دیں جن میں انتخابات کے التواء کے حوالے سے کوئی جھلک ہو۔آرمی چیف نے فوجی لب ولہجے کی قطعیت کے ساتھ ایک بار پھر واضع کردیا ہے کہ قوم جس طرح کے چاہے نمائندے منتخب کرے’فوج جمہوریت کا ساتھ دے گی۔ چیف الیکشن کمیشن کے دفتر کی رونقیں بحال ہوچکی ہیں اور وہ کراچی میں غیر لسانی بنیادوں پر انتخابی حلقہ بندیوں میں پھر سے مصروف ہوگئے ہیں۔تینوں چیف کی متواتر یقین دہانیوں کے بعد محترم طاہر القادری کی طرف سے انتخاب کے انعقاد کو حقیقت کے طور پر قبول کر لیاگیا ہے

Continue reading »

written by

Feb 25

Click here to View Printed Statement

یہ ایک انوکھی تقریب تھی۔آج پاکستان میں ہر طرف خون کی آندھیاں چل رہی ہیں اور پورا ملک قتل گاہ بن چکا ہے۔ مسلمان ایک دوسرے کو کاٹ رہے ہیںاورغیر مسلم سہمے ہوئے اپنی جانیں بچانے کی غرض سے ہمسایہ ممالک میں پناہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔مولوی’ مفتی’علامہ’ قاری اور قاضی اور قادری کا نام آتے ہی ایک عجیب سا خوف دامن گیر ہوجاتا ہے ‘مذہب’مدرسہ’ مسجد’جبہ و دستار اور منبرومحراب دہشت کی علامتیںبنا دی گئی ہیں۔کون’ کب’ کہاں کسی کو موت کے گھاٹ اتار دے کچھ اندازہ نہیں ہوسکتا۔شیعہ محفوظ نہ دیوبند ی پرسکون۔یہ تو مسلمانوں کے مختلف مسالک کا حال ہے’ بیچارے غیر مسلم کہاں اور ان کی صدائیں کہاں۔ ایسے خونیں حالات میں جہاں اعتماد اور اعتقاد دونوں مشکوک ہوجائیں وہاں قاضی حسین احمد مرحوم کی یاد میں تقریب گویا نفرتوں میں جلتی ملت کے لئے تھوڑی دیر سستانے اور ذہنی طور پر پاکیزگی اختیار کرنے کا ایک نادر موقعہ تصور کیا جانا چاہیے۔

Continue reading »

written by

Feb 19

Click here to View Printed Statement

Jang Lahore Iqra Page

آجکل فحاشی اور عریانی کے ہر مظہر کو ملفوف بنا کر مارکیٹ کرنے کا رواج چل پڑا ہے۔عورت کو حیا اور پاکیزگی کے ماحول سے نکالنے کے نت نئے طریقے ایجاد ہوگئے ہیں۔بدقسمت عورتیں ہیں جو اپنی ناسمجھی یا کسی مجبوری کے سبب ابلیسی دماغوں کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس جاتی ہیں اور پھر ”پبلک پراپرٹی” بن کر اپنے تقدس کو چند ٹکوں کے عوض دربدر نیلام کرتی پھرتی ہیں۔ پاک دامن بچیوں اور بیبیوں کو چکا چوند کردینے والے مناظر کے پیچھے چھپے غلیظ کاروبار سے آگا ہ کرنا جہاں والدین کا فرض اولین ہے وہیں قلم کار وں اور دانشوروں کو بھی اس پھیلے ناسور کا ادراک ہونا چاہیے۔ خوبصورت لباس زیب تن کرنا ہر ذی روح کی قدرتی خواہش ہے اور زیورات اور بنائو سنگھار عورت کی شدید ترین آرزو ہوتی ہے ۔بوتیک پر بکنے والے لباس کے ساتھ اگر کسی ہیروئن یا ماڈل کی تصویر ہو تو کاروبار خوب چمک جاتا ہے ۔

Continue reading »

written by

Feb 11

Click here to View Printed Statement

یہ توفیق کی بات ہے ۔اللہ نے موجودہ حکومت کو یہ توفیق بخشی اور کابینہ کے دستخطوں سے پاکستان کی بہتری کا ایک اور بندوبست ہوگیا۔2002ء میں بحیرہ عرب میں گوادر کے مقام پر گہرے پانیوں میںخطے کی ایک بڑی بندرگاہ کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ چین کے ڈپٹی پرائم منسٹر اور پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف نے تختی کی نقاب کشائی کی تھی۔بندرگاہ کی تعمیر کے لئے سرمایہ چین نے فراہم کیا تھا اور عمومی رائے یہی تھی کہ تعمیر کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد بندرگاہ کے انتظامات بھی چین سنبھالے گا۔ لیکن امریکی دبائو کے سامنے پرویز مشرف صاحب حسب روایت ڈھیر ہوگئے اور سنگاپور کی ایک کمپنی کو انتطامات سونپ دیئے گئے۔

Continue reading »

written by

Feb 11

Click here to View Printed Statement

ان لوگوں سے پیشگی معذرت جنہوں نے جمہوریت کو مذہب کا درجہ دے رکھا ہے۔مغربی جمہوریت کے شاہکار سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔یورپی ممالک میں اب شہریوں کی فلاح و بہبود کے بجائے ہم جنس پرستوں کے شیطانی حقوق ایشو بن چکے ہیں۔امریکہ کی ایک ریاست میں ”چکلے” چلانے والے ایک بدکار کو گورنر بنایا گیا ہے۔ یہی نہیں امریکی حکومت خصوصاً صدر ابامہ مجبور ہے کہ وہ طاقتور حزب اختلاف  کے دبائو کے سامنے سرنڈر کرجائے اور جنگ بندی کی خواہش کو ترک کرکے نئی جنگوں کی گنجائش پیدا کرے تاکہ امریکی اسلحہ ساز اور آئل کمپنیوں کا بزنس چلتا رہے۔خود پاکستان کے اندر جمہوریت کے پردے میں جو لوٹ مار ہورہی ہے اس کے تذکروں سے اخبارات بھرے پڑے ہیں۔’

Continue reading »

written by

Feb 11

Click here to View Printed Statement

ثقافت کی کوئی متفقہ تعریف وقت کی زیاں کاری ہے ۔ایک حقیقت متفقہ ہے کہ ثقافت عقائد سے جنم لیتی ہے۔ اس فارمولے کی مدد سے ہم یورپی’ بھارتی اور پاکستانی ثقافتون میںواضح تفریق کرسکتے ہیں۔ایک عام مسلمان پاکستانی کا عقیدہ کیا ہے۔قرآن کتاب ہدایت ہے اور سیرت رسولۖ اس ہدایت کا نمونہ ہے۔کسی گئے گزرے مسلمان سے بھی پوچھ لیں اسے ایمان کے اس درجے پر آپ ضرور پائیں گے۔پاکستان میں ننانوے فیصد مسلمان ہیں اور وہ اپنی سوچوں میں اسلامی تعلیمات کو ہی اپناذریعہ ہدایت اور وجہ نجات سمجھتے ہیں ۔
ان کی سوچ میں مرد و زن کے وہی رشتے مقدس ہیں جنہیں اسوہ رسولۖ نے مقدس ٹھہرایا ہے۔ لباس’چال چلن’رہن سہن اور بول چال کے جو معیار رات قرآن نے طے کردیئے ہیں ‘ عامتہ الناس ان معیارات کو ہی اعلیٰ اخلاقی اقدار کے طور پر قبول کرتے ہیں۔ پاکستانی قوم بحیثیت مجموعی ثقافت کی کسی ایسی تشریح کو ماننے پر تیار نہیں جو قرآن وسنت کے صریحاً خلاف ہو۔عمل کی بات نہیں میں یہاں ایمان اور عقیدے کی بات کر رہا ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہمارے ٹی وی سکرینوں پر کوئی منظر’کوئی ڈائیلاگ’کوئی کہانی ‘کوئی فوٹیج ایسی دکھائی دیتی ہے جوہماری عظیم اسلامی اقدار کے خلاف ہو تو ناظرین اور سامعین کا بلڈپریشر ہائی ہوجاتا ہے۔ وہ بیزاری کا اظہار کرتے ہیں لیکن تفریح و معلومات کا کوئی متبادل انتظام نہ ہونے کے سبب دلگرفتگی کے عالم میں چپ سادھ لیتے ہیں۔

Continue reading »

written by

Jan 23

Click here to View Printed Statement

جتنے منہ اُتنی باتیں۔سازشی نظریے بے شمار’ہوائی تجزیے ہزار ہا۔فلسفیانہ پہلوئوں پر بحث و تحمیص تھمنے کا نام نہیں لیتی۔دانشوروں کا ایک گروہ مصرکہ اس سارے ”ڈرامے ”کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ تھا۔دوسرا گروہ بعض ہمسایہ اور دوست ممالک کو چھپا ہوا ہاتھ قرار دے رہا ہے۔ہر کوئی لانگ مارچ کی گتھی سلجھانے میں مصروف ہے لیکن  بدنیتی  کے سبب نہ ڈور سلجھی ہے
نہ سرا ہاتھ آیا ہے۔تحریک منہاج القرآن والے کیوں دبک کر بیٹھ گئے۔

Continue reading »

written by