Apr 28

Click here to View Printed Statement

قرآن پاک کی سُورة القصص میں بڑی تفصیل سے قارون کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ اس قصہ کا مقصد اسلام کے نظام مال و زر کی وضاحت کرنا ہے۔قارون مصر میں فرعون کا نمائندہ تھا جسے بنی اسرائیل قوم کو دبانے کے لئے بے بہا دولت دی گئی تھی۔ اُس کی دولت کا عالم یہ تھا کہ اس کے خزانے کی چابیاں اٹھانے کے لئے دس اونٹ درکار ہوتے تھے۔ دولت نے اسے انتہائی متکبر اور خودسر بنا دیا تھا۔ اس کی دولت کا چہارسوچرچا تھا۔ وہ مال و دولت کو خرچ کرنے کی بجائے اس میں اضافہ کرتا رہتا تھا۔ قارون کو سمجھایا گیا کہ وہ اپنی دولت جمع کرنے کی بجائے مساکین اور ضرورت مندوں پر خرچ کرے اور اس کے ذریعے اپنی آخرت سنوارے۔ لیکن قارونی نفسیات اس قدر غالب تھی کہ وہ اللہ‘ آخرت اور روزوجزا کا مذاق اُڑاتا اور ہوس زر میں مدہوش رہتا تھا۔
قرآن میں قارون کا عبرتناک انجام بتایا گیا ہے۔ وہ اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ اُس کی دولت اس کے کسی کام نہ آسکی۔ اس کا آقا فرعون بھی اسے بچا نہ سکا۔ جو لوگ قارون کے خزانوں سے مرعوب رہتے تھے وہ اس کا خوفناک انجام دیکھ کر شکر بجالائے کہ وہ کم از کم قارون بننے سے بچ گئے تھے۔
ہوس زر میں مبتلا ہر شخص قارون ہے۔ قارونی سوچ کے اسیر امراءکی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔ جوں جوں دُنیا کی دولت میں اضافہ ہورہا ہے‘ قارونوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ حالیہ تحقیقاتی رپورٹوں سے پتہ چلا ہے کہ سوئٹزرلینڈ کے بینکوں میں دُنیا بھر کے قارونوں کی دولت جمع ہے۔ پاکستانیوں کی بھی کثیر تعداد موجود ہے جن کی بے پناہ دولت کا انہیں خود بھی اندازہ نہیں ۔ پھر یہ رپورٹیں بھی سامنے آئیں کہ دُبئی میں بڑے بڑے قارونوں نے پراپرٹی کے اندر بھاری سرمایہ کاری کردی ہے۔ ملائشیا اور برطانیہ میں بھی ہوس زر کے مجسم مظاہرے دیکھنے کو ملے ہیں۔ دُنیا کے امیر ترین افراد کی سب سے بڑی تعداد امریکہ میں ہے جن کی دولت بینکوں میں پڑی ہے اور اس دولت کا نوح انسانی کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ Continue reading »

written by host

Apr 28

Click here to View Printed Statement

سچائی ہی نظریہ پاکستان کا جوہر ہے۔ نظریہ پاکستان ہی پاکستان کی اساس ہے۔ قیام پاکستان کی تحریک کے دوران مخالف لابی نے ایک ایک رہنما کے بارے میں مسلسل چھان بین کی۔کردار کشی کی مہم بھی زوروں پر تھی۔ہندو دانشور دن رات اکابرین ملت کے مالی اور اخلاقی معاملات کی کھوج لگاتے رہتے تھے۔آپ سات برس کی آزادی کی جدوجہد کو پڑھ لیجئے۔ مخالفین کے حملوں کے احوال اور الزامات کی بوچھاڑ کا تذکرہ دیکھ لیجئے۔ کہیں ایک جملہ بھی تحریک پاکستان کے رہنماﺅں کے کردار کے حوالے سے سامنے نہیں آئے گا۔ ایک روپے کی کرپشن کا ذکر نہیں ملے گا۔ ہر رہنما صرف ستھرے کردار میں ڈھلا ہوا سامنے کھڑا ہوگا۔قائداعظمؒ کی ایمانداری کی تعریف تو دشمن بھی کیا کرتے تھے۔ میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان کی بنیادوں میں نہ کہیں ہوس زر ہے نہ کوئی رشوت ہے اور نہ ہی کوئی مالی منفعت سامنے آتی ہے۔ پھر کیا ہوا کہ ہم نے آم کے درخت کا بیج بویا لیکن ہمیں تھور اور بیول کے کانٹوں کی فصل کاٹنا پڑ رہی ہے۔
گزشتہ دنوں ملک کے ممتاز تجزیہ کار اور کالم نگار جناب جاوید صدیق میرے آفس میں تشریف لائے۔جناب بیگ راج بھی ان کے ہمراہ تھے۔ سیاست میں کرپشن پر بات شروع ہوئی۔ جاوید صدیق بتا رہے تھے کہ تحریک پاکستان کے رہنماﺅں نے قیام پاکستان اور استحکام پاکستان کے لئے کس طرح کی مالی قربانیان پیش کیں۔ Continue reading »

written by host

Apr 25

Click here to View Printed Statement

میاں محمد نواز شریف کیا سوچ رہے ہوں گے۔شائد وہ یہ سوچ رہے ہوںکہ پاناما لیکس میں اُن کا نام نہیں ہے پھر وہ استعفیٰ کیوں دیں۔ سب سے بڑھ کر وہ یہ سوچ رہے ہوں کہ استعفیٰ کے حوالے سے اپوزیشن پارٹیوں کی ایک رائے نہیں ہے اس لئے کسی بہت بڑی احتجاجی تحریک کا امکان نہیں ہے۔ اُن کے حسین خیالوں میں یہ خیال بھی انگڑائیاں لیتا ہوگا کہ چین اور سعودی عرب جیسے طاقتور دوست اُن کی پشت پر ہیں اور” سی۔پیک منصوبہ“ اُن کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا اس لئے ان کی وزارت عظمیٰ پاکستان ہی نہیںبلکہ دیگر ممالک کی بھی مجبوری ہے۔وزیراعظم پاکستان یہ خوبصورت سوچ بھی سوچتے ہوں گے کہ پارلیمان میں اُن کی قوت ہے اور پیپلزپارٹی کی اپنی کرپشن میاں صاحب کے لئے بہت بڑا آسرا ہے۔ہزار سوچیں سوچتے ہوں گے لیکن آخر پر پھر سوچتے ہوںگے کہ اگر ”انگلی اُٹھ گئی“ تو وہ کیا کریں گے؟ ہوسکتا ہے کہ انہوں نے اسحاق ڈار‘خواجہ آصف ‘خواجہ سعد رفیق اور شہباز شریف سے ”اگر انگلی اٹھ گئی“ کے بعد کا منظر ڈسکس کر لیا ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے Continue reading »

written by host

Apr 21

Click here to View Printed Statement

پاکستانی قوم نے یہ منظر بھی دیکھنا تھا۔پانامہ لیکس کے پردے میں اُٹھنے والے سیاسی طوفان نے جہاں حکمرانوں کی ہوائیاں اُڑائیں وہیں سیاستدانوں کی حواس باختگی بھی سامنے آئی۔ یہ منظر ہم سب نے دیکھا کہ وزیراعظم نوازشریف‘وزیرداخلہ چوہدری نثار‘وزیراعظم کا خاندان اور حزب اختلاف کے رہنما سب کے سب ایک ہی وقت میں لندن یاترا کر رہے تھے۔عمران خان کو بھی لندن جانے کی جلدی تھی۔ ان کے ساتھ ان کی مبینہ طور پر ”اے ٹی ایم مشینیں“ بھی لندن میں تھیں۔ الطاف حسین پہلے ہی لندن میں خود ساختہ جلا وطنی سے لطف اندوز ہورہے ہیں جبکہ آصف علی زرداری بھی بسلسلہ ”علاج“ اسی دیارغیر میں مقیم ہیں۔ بقول شاعر‘
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میّر ہوئے
سب اسی زلف گرِہ گیر کے اسیر ہوئے
یوں لگتا تھا جیسے پاکستان تو آزاد ملک ہے لیکن اس کا حکمران طبقہ ابھی تک آزاد نہیں ہوسکا۔ان کا کاروبار اور اولاد دونوں باہر ہیں۔اثاثے باہر ہیں۔ علاج باہر ہوتا ہے اور سیاسی مشاورت بھی انگلینڈ میں ہوپاتی ہے۔ جب بھی یہ طبقہ کسی ایمرجنسی‘ کسی سیاسی ہلچل یا کسی کرپشن کہانی کا شکار ہوتا ہے لندن کی طرف بھاگتا ہے۔ ان کی لگامیں اب بھی کسی برطانوی خفیہ ایجنسی کے ہاتھوں میں ہیں۔انگریز کا ملک آج بھی ہمارے غلامانہ ذہنیت کے مارے طبقہ اشرافیہ کے لئے آخری جائے پناہ ہوتی ہے۔ Continue reading »

written by host